بھٹکل میں اندرونی نالیوں کے ابترحالات ؛ حل کے منتظر عوام :پریشان عوام کا وزیرا علیٰ سے سوال، کیا ہوا تیرا وعدہ ؟؟
بھٹکل:10/جنوری (ایس او نیوز) یہاں کے عوام کے سامنے چاند اورسورج لانے کے وعدے کرنےکے باوجود عوام کے بنیادی سہولیات کی حالت دگرگوں اور قابل تشویش کی حد تک جاری ہے، جو بھٹکلی عوام کے لئے کسی سانحہ سے کم نہیں ہے، خاص کر بھٹکل شہر میں اندرونی نالیوں کا نظام عوام کو ہر طرح سے پریشان کررکھاہے۔
یہ کیسا سانحہ دیکھئے ! ضلع میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کی طرف گامزن شہر بھٹکل میں گندے پانی کی نکاسی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ پانی جہاں تہاں جمع ہوکر گھروں اور کمپائونڈوں کے اندر پہنچ کرگھروں کو آلودہ کررہا ہے۔ شہر کے کنوؤں کی کہانی کہنے کے لائق ہے ہی نہیں، اسی طرح ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں گھر کے صحن میں فضلات سے آلودہ پانی میں کیڑوں ، جراثیموں کی بھر مار کی وجہ سے تکالیف کا سامنا کرتے عوام بلدیہ کے خلاف پولس تھانے تک پہنچ گئے تھے ۔ایسا لگتاہے کہ مچھروں کی پیدائش کے لئے شہر بھٹکل بالکل موزوں اور مناسب مقام ہے، بیماری کے خوف کا ازالہ کبھی ہوگا بھی یا نہیں، اس بات کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ راہ گیروں کے لئے تو بارش کے موسم میں اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ بارش کا پانی کونسا ہے اور گندہ اور آلودہ پانی کونساہے۔ پانی بہنے کے لئے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے قلب شہر شمس الدین سرکل بارش کے موسم میں اکثر تالاب کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ ریاست میں جب ایس ایم کرشنا کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی تو شہر بھٹکل میں اندرونی نالیوں کے زون 2اور زون 3کا کام مکمل ہوا تھا مگر زون 1 کا کام باقی رکھا گیا تھا۔ اب دو زون پر ہوئے کام پر دس سال سے زائد کا عرصہ گذرچکا ہے۔ نوائط کالونی، آزاد نگر، بندرروڈ اور اطراف کے علاقوں میں باپ دادا کے زمانے کی نالیاں بھر کر خشک ہوجاتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ شہر بھٹکل میں اندرونی نالیوں کا بہترین انتظام نہ ہونےکی وجہ سے پورا شہر آلودگی سے بھرا نظر آتاہے۔ بھٹکل بلدیہ اب حکومت کو عرضیاں دے دے کر سست ہوچکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل آیاہے۔
2014 میں مجلس اصلاح وتنظیم کے صد سالہ جشن میں شرکت کرنے والے وزیر اعلیٰ سدرامیا کے سامنے ذمہ داران نے جب اندرونی نالیوں کے ابتر حالات کی تفصیل پیش کی تھی تو کھڑے پاؤں وہیں پر وزیرا علیٰ نے اس کو منظوری دی تھی ۔ اسی ڈائس پر رکن اسمبلی منکال وئیدیا بھی موجود تھے۔ افسوس یہ ہے کہ وزیرا علیٰ نے جیسے ہی ہیلی کاپٹر پر سوارہوکر بنگلورو کی طرف پروازکیا ادھر اندرونی نالیوں کا کام ہوا میں اڑ گیا۔ یہ مسئلہ اب نہ وزیر اعلیٰ کو یا دہے نہ رکن اسمبلی اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔اس تعلق سے جب میونسپل صدر محمد صادق مٹا سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ڈرینیج سسٹم کے نئے فیس کے لئے قریب 250 کروڑ روپیوں کی ضرورت ہے، سننے میں آیا ہے کہ حکومت 240 کروڑ روپئے کی منظوری دینے والی ہے، مگر اس رقم کو حاصل کرنے کے لئے رکن اسمبلی کے ذریعے بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ رقم منظور کرتی ہے تو کام شروع کیاجاسکتا ہے۔
اُدھر غوثیہ اسٹریٹ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ڈرینیج سسٹم سے سب سے زیادہ اُن کا علاقہ متاثر ہوا ہے، ڈرینیج سسٹم مکمل طور پر فیل ہوجانے سے پورے شہر کی گندگی غوثیہ اسٹریٹ میں واقع پمپنگ اسٹیشن پر جمع ہوتی ہے اور نکاسی نہ ہونے پر گندے پانی کو قریبی ندی میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے علاقے کے کنویں خراب ہوگئے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں ندی آلودہ ہوجانے سے بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو ذمہ داران اس معاملے کو لے کرآ ج اور کل پر ٹال رہے ہیں۔ اندرونی نالیوں کافائل محکمہ آب رسانی کے میز پر دھول کھارہی ہے۔ جس کی طرف شاید ہی کوئی دیکھتا ہوگا ،انہی گومگوں کی کیفیت میں اندروںی نالیوں کے زون دو اور زون تین کا کام مکمل ہوکر 10سال بیت چکے ہیں، سال گزرنےکے ساتھ ساتھ منصوبے کی لاگت رقم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، اب ریاستی حکومت کی میعاد بھی صرف ایک سال کی باقی رہ گئی ہے۔ ایسے میں اگر وزیراعلیٰ اس طرف نظر دوڑاتے ہیں تو کسی کرشمہ سے کم نہیں ہوگا۔ وعدوں، ارادوں کے درمیان حیران پریشان بھٹکلی عوام کا یہ مسئلہ آخر کب حل ہوگا، حل ہوگا بھی یا نہیں۔۔ اس کا جواب ذمہ داران بھی ٹھیک طور پر نہیں دے پارہے ہیں۔