سخت ترین دشمنوں سے بھی بات چیت جاری رکھنا چاہئے ،گفتگوکا دروازہ بند نہیں ہونا چاہئے؛ بابری مسجد کے تعلق سے مولانا سید سلمان حسینی ندوی کا اظہار خیال
بھٹکل:8/ فروری (ایس اؤنیوز) بابری مسجدکے تعلق سے سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کے متعلق پوچھے گئے سوال پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے معروف عالم دین مولانا سید سلمان حُسینی ندوی نے خدشہ ظاہر کیا کہمسلمانوں کو ویسا ہی انصاف مل سکتا ہے، جیسے طلاق ثلاثہ کےمعاملے میں ملاہے ۔ انہوں نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ جان بوجھ کر شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے عورتوں اور مردوں کے مسئلے میں انتشار پیدا کرکے ، اسلام میں عورت کو مظلوم کا الزام لگاکر مداخلت کی گئی ہے۔ بابری مسجد کا ْقضیہ حل کرنے کے تعلق سے مولانا نے کہا کہ بات چیت کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے، بات چیت 100بار ہو، پیچھے نہیں ہٹناچاہئے ،کیونکہ بات چیت انسانی زندگی کا تہذیبی اور اخلاقی عمل ہے۔ حضورﷺ مدینہ میں بدر،احد، خندق کی جنگ کے بعد صلحِ حدیبیہ کامعاہدہ کیا ،مولانا نے کہا کہ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ حضور ﷺ نے یہ معاہدہ کن لوگوں کے ساتھ کیا تھا، انہوں نے اُن دشمنوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جن سے لڑائی ہوئی تھی، یہاں تو ہماری اور غیر مسلموں میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہے ، ہم سب اسی ملک کے شہری ہیں، ہمارے یکساں حقوق ہیں، دستور سب کو مساوی حق دیتا ہے ، اس بنا پر بات چیت ضرور ہونی چاہئے، اور آزادی ، کھلے پن اور کھلے دل کے ساتھ ہونی چاہئے. مولانا کے مطابق امت مسلمہ کو داعیانہ انداز اپنا کر بات چیت کرنا چاہئے۔ سادھوں ، سنتوں ، مہنتوں ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اورشدت پسند تنظیموں سے بھی بات چیت کرنی چاہئے۔ تاکہ حالات معمول پر لوٹیں، ان کے مطابق بات چیت کا راستہ ہمیشہ کھلا رہے بند نہ ہونے پائے اور بدگمانی نہ پھیلائی جائے۔ موصوف بھٹکل جامعہ اسلامیہ کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرنے کے دوران اخبارنویسوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں سکیولر اور غیر سکیولر نامی الفاظ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا، یہ الفاظ بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں، واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سکیولرزم ایک پردہ ہے ، غلاف ہے اور نقاب ہے، موجودہ دور ملکی تاریخ کاایک سیاہ دور ہے۔ مولانا نے کہاکہ اس وقت ملک میں سکیولر کے نام پر جو کچھ ہورہاہے وہ درپردہ ہندوتوا کی نمائندگی ہورہی ہے۔ اس ملک کی آزادی میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے اورمسلمانوں نے کانگریس کی سب سے زیادہ حمایت کی خاص کر جمعیتہ العلماء نے سرگرم رول ادا کیا اس طرح سب کی متحدہ کوششوں سے ملک کو آزادی ملی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تقسیم کے وقت تقریباً 30لاکھ انسانوں کا قتل ہوا، 1950 میں جب دستور کا نفاذ ہونے کے بعد توقع تھی کہ ملک کی بنیاد سکیولر، جمہوریت اور مساوات پر ہے اسی کے مطابق سب کے ساتھ یکساں برتاؤ ہوگا اورکسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیاجائے گا۔ لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ نے پوری حقیقت کو کھول کر رکھ دیا کہ مسلمان شودروں کے مقام پر آ گئے ہیں۔
مولانا نے کہا کہ اس ملک میں یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوششیں، بابری مسجد میں مورتیوں کا رکھنا، شیلانیاس کا اقدام یہ سب کانگریس کے دورِ حکومت میں ہوا، حتیٰ کہ بابری مسجد کی شہادت تو باقاعدہ کانگریس کے نرسمہا راؤ کی نگرانی میں ہوئی۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سکیولرزم ایک فریب ہے اندرون خانہ اس کو ہندو ملک بنائے جانے کی بات کئی لوگوں نے کہی ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں 25-30ہزار فسادات ہوئے ا س میں زیادہ تر کانگریس کے دور میں ہوئے تو غور کرنا چاہئے کہ سکیولر لفظ نے کیا گل کھلایا ہے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ایسے حالا ت میں مسلمانوں کو کس پارٹی کے ساتھ جانا چاہئے اور کس کی حمایت کرنی چاہئے، مولانا نےکہاکہ مسلمان مظلوم طبقات ، دلتوں ، پسماندہ طبقات کا ساتھ لے کر اور ان کا ساتھ دے کر ایک مضبوط پارٹی بنائیں، کانگریس اور بی جے پی کا متبادل قائم کریں ، سیاسی میدان میں جمہوری طریقے پر جدوجہد کریں ،تب کہیں جاکر ملک کے مسائل حل ہونگے ورنہ نہیں ہونگے۔ مولانا نے کہا کہ ایسی ایک کوشش سات سال پہلے یوپی میں کی گئی تھی مگر سیاسی لیڈروں اور بڑی جماعتوں نے ایک نئی قیادت کو ابھارنے کی جو جدوجہد ہورہی تھی اس کا خاطر خواہ ساتھ نہیں دیا جس سے نقصان ہوا،یہ ہمارا ایک المیہ ہے۔مزید بتایا کہ اس طرف توجہ نہ دینا بہت بڑی غلطی ہے، جن میدانوں میں ہماری نمائندگی نہیں ہے وہاں مسلمان آگے بڑھیں، تعلیم میں پیش پیش رہیں،دنیا بھر سے دھتکاری گئی یہودی قوم اس کی ایک بہترمثال ہے کہ انہوں نے کڑی محنت کی اور دوسوبرسوں میں دنیا پر چھاگئی ،اس وقت دوا اور علاج کی ضرورت ہے اس کابہتر استعمال کریں ، علم و عمل کا ساتھ ہو،اگر آپ صحیح میدان میں ٹھیک سمت پر کام کررہے ہیں تو فتح حاصل ہوگی۔
مسلمانوں کے آپسی اختلافات پر مولانا نے کہاکہ اختلاف پریشانی نہیں ہے ، اختلاف کامطلب نزاع وجھگڑا نہیں ہے۔اختلاف کے نام پر شور مت مچائے کیونکہ صحابہؓ، تابعین ،اماموں کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے اس کے باوجود مسلمانوں نے دنیا کو فتح کیا ہے، ہم اگر اپنے اختلافات کو جھگڑا بنائیں گے تو شکست پر شکست کھائیں گے۔ مولانا نے کہاکہ کسی لمحہ بھی اختلاف کو جھگڑے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
سو شیل میڈیا اور میڈیا کے دیگر ذرائع کے استعمال کے متعلق مولانانے کہاکہ میڈیا علماء و اکابرین کی باتوں کو عوام میں پھیلائیں، میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں تک بات پہنچائیں۔اگر وہ سچائی ، صحیح اور درست طورپر کام کرتاہے تو بہت بڑا کام کرسکتاہے۔ اسلامی نظریہ کو پرنٹ، الکٹرانک، سوشیل میڈیا اورٹی وی چینل کے ذریعے استعمال کریں۔ جب ذرائع ابلاغ کو غیروں نے استعمال کیا تو وہ اقتدار تک پہنچ گئے اس کے بالمقابل مسلمانوں نے ذرائع ابلاغ کو خیرآباد کیا تو آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔