بھٹکل:خون کا عطیہ دینے والے شہر میں خون ملتا ہی نہیں :باشندوں کی درد بھری کہانی :کیا عوامی نمائندے توجہ دیں گے؟
بھٹکل:25/اگست(ایس او نیوز) یہ بھٹکل کے باشندوں کی درد بھری کہانی ہے، یہاں ہرسال خون عطیہ کیمپوں کا اہتمام ہوتارہتاہے، تعلقہ کےمختلف ادارے، تنظیمیں سماجی خدمت کے نام پر پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔ ہردیہات میں خون عطیہ دینے والے نوجوان ملیں گے۔ کئی ایک ایسے بھی ہیں جو 25سے زائد بار خون کا عطیہ دے چکے ہیں، ہزاروں لیٹر خون اُڈپی، منگلورو کے خون مراکز میں ذخیرہ کیا جاتاہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کبھی مقامی لوگوں کو خون کی ضرور ت ہوتی ہے تو انہیں اُڈپی اور منگلوروجا کر خون لانا مجبوری بنتی جارہی ہے۔
بھٹکل میں 100بیڈ کاسرکاری اسپتال ہے، 10سے زائد نجی اسپتال ہیں، ضلع میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی پانے والے شہر بھٹکل میں بلڈ بینک نہیں ہے۔ ایک مقامی سرمایہ دار اور خیر خواہ نے لاکھوں روپئے خرچ کرکے سرکاری اسپتال کے لئے ایک بلڈ اسٹوریج کا عطیہ دیا تھا۔ لیکن سرکاری اسپتال میں موجود یہ اسٹوریج قریب 70کلومیٹر دور اُڈپی سرکاری اسپتال پر انحصار کرتاہے۔ وہ خون دیں گے تو ہی یہاں کے اسٹوریج کا دروازہ کھلتاہے۔ قومی شاہراہ بھٹکل سے گزرنے کے عوض بے شمار حادثات ہوتے رہتے ہیں، حاملہ عورتوں کو زچگی کے دوران خون کا رساؤ ہونے سے بھی ضرورت ہوتی ہے، کسی مریض کو خون رساؤ ہونےپر خون چاہئے تو سرکاری اسپتال میں داخلہ لینا، اس کے علاوہ اُڈپی سے خون لانے تک انتظا رکرنا ہوگا، 35دن تک کام آنے والا خون کئی مرتبہ آخری وقت میں بھٹکل کو روانہ کیاجاتاہے، بعض ایک مرتبہ ڈاکٹر حضرات تازہ خون کی مانگ کرتے ہوئے انکار بھی کرتے ہیں، مریض کو بچانےکے لئے پھر وہی کنداپور، اُڈپی کی طرف سفر کرنا مقامی لوگوں کا معمول ہوگیا ہے۔ بھٹکل کے کسی نجی اسپتال کے مریض کا خون رساؤ ہوتاہے تو فوری طور پر خون دینا ناممکن ہے ۔ مقامی سرکاری اسپتال سے ایک قطرہ خون بھی نہیں ملتا۔ خون ذخیرہ تھیلی کی سپلائی کے کڑے ضوابط کی وجہ سے گذشتہ 3-4 مہینوں سے نجی اسپتالوں کے خون ذخیرہ مرکز وں نے اپنا دروازہ بند رکھا ہے ۔ نجی اسپتالوں کاکہنا ہے کہ ہم لوگ ہبلی سے خون کی تھیلیاں (بلڈ بیگ )لا کر عوام کی مدد کیاکرتے تھے، لیکن وہاں چھاپہ ماری اور ضبط کی کارروائیاں شروع ہونے سے ہمیں مجبوراً یہ سب بند کردینا پڑا ہے۔ بتایا گیا ہے سرکار نے منظور کیا ہے کہ ہرتعلقہ میں خون اسٹوریج مہیا ہو، لیکن عوام کہتے ہیں کہ اس سے اُنہیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں جب ساحل آن لائن نے تعلقہ میڈیکل افسرڈاکٹر ستیش سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ بالکل سچ ہےکہ بھٹکل کے لئے بلڈ بینک کی مانگ ہے، پیاتھولوجسٹ(علم الامراض کے ماہر ) کی قلت ہے، انہوں نے اس بات کو قبول کیا کہ ایمرجنسی کے حالات میں عوام کو اسٹوریج سے کوئی خاص فائد ہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ عوام نے عوامی نمائندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرف توجہ دے کر مسئلہ کا حل نکالیں۔
’’ فوری حالات میں بھٹکل کے عوام کو جب خون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اُڈپی سےخون آنے تک مریض کی کیا حالت ہوگی، یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ سرکاری اسپتال کے اسٹوریج سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہاہے، مریض کہیں مر نہ جائے ، یہ سوچ کرجب کوئی خون دینے کے لئے آگے بڑھتاہے تو لیباریٹری میں خون کے ذخیرے کو لے کر قوانین کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا ہے،بھٹکل میں بلڈبینک قائم کیاجاتاہے تو عوام کے لئے بہت بڑا احسان ہوگا۔ اگر سرکاراس میں دلچسپی لیتی ہے تو یہاں کےمقامی افراد بھی تعاون دینے کے لئے تیارہیں۔ یہ بات 34مرتبہ خون کا عطیہ دینے والے اور 700سے زائد لوگوں کو خون مہیا کرنے والے سماجی کارکن نذیر قاسمجی نے کہی ‘‘۔