بھٹکل کے تازہ حالات تناظر میں ایک کنڑا جرنلسٹ وسنت دیواڑیگا نے ایک اہم رپورٹ تحریرکی ہے، جس کا اُردو ترجمہ یہاں پیش کیاجارہا ہے۔ رپورٹ میں مضمون نگار نے جن خیالات اور خدشات کا اظہار کیا ہے، ان سب باتوں سے ادارہ ساحل آن لائن کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں۔
ادارہ ساحل آن لائن
بی جے پی کے لئے سن 2018کے انتخابات کرو یا مرو کا کھیل ہیں۔ کرناٹک کے ساحلی پٹی پر سنگھ پریوار کی سرگرمیاں بی جے پی کے لئے ہمیشہ سے بنیاد عطا کرتی رہی ہیں۔ برسر اقتدار کانگریس کو جھٹکا دینےکے لئے فی الحال بی جے پی مختلف موضوعات کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہوئے بھٹکل کی طرف اپنے قدم بڑھائی ہے۔
1993کے فسادات سے کس کس کو کتنا نقصان پہنچا اس کا حساب کتاب ابھی تک مکمل نہیں ہواہے اور مذاہب کے درمیان شکوک وشبہات، نفرت ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہےہیں۔ لیکن اگر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ کس کو فائدہ ہوا ہے تو ان کا واضح جواب ملے گا۔ سنگھ پریوار کی تنظیموں کو بھٹکل نے ہی بنیاد عطا کی ہے، کرناٹکا کے ساحلی پٹی پر بی جے پی کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں سنگھ پریوار کی ان ہی جڑوں کا بنیاد ی رول رہاہے۔ ڈاکٹر یو ، چترنجن نے نہ صرف ایم ایل اے کے طورپرجیت حاصل کی بلکہ غیرمنقسم دکشن کنڑا، اترکنڑا اضلاع تک اس کو پھیلایاتھا۔ ہندو جاگرن ویدیکے کے اننت کمار اسی بھٹکل مٹی کی رہین منت سے پانچ مرتبہ بطور ایم پی منتخب ہوئے ہیں۔ پیٹ پالنے کے لئے مزدوری کرنے والے لڑکے مختلف تنظیموں اور اداروں کے رہنما بنے، مسلسل احتجاج کے سرخیل بنے، اور انتخابات کے لئے معاون بنے ۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے مرکز بھٹکل میں طوفان برپا ہوا، آہستہ سے سنگھ پریوار کے خول سے باہر آئے سابق وزیر شیوانند نائک اپنی سیاست کو باقی رکھنے کے لئے اپنی ہی طرح سنگھ پریوار کی ناراضگی کا شکار ہونے والے بی جے پی لیڈر یڈیورپا کے ساتھ چلے گئے۔ سیاست کی چالبازیوں کے باوجودبڑی مضبوطی کے ساتھ اپنا مقام بچائے رکھا ۔ دونوں کی شکست ہوئی اور بی جے پی کی بری ہار تاریخ کا حصہ بنی ۔ گزرتے دنوں کے ساتھ بی جے پی میں دوبارہ ہلچل ہورہی ہے، یڈیورپا ریاستی صدر کی گدی پرہیں، لیکن شیوانند نائک شاید دوبارہ اُسی متحرک چہرے کے ساتھ آگے آنا نہیں چاہتے۔ انہی وجوہات کی بنا پرسنگھ پریوارپھر ایک بار بھٹکل میں اننت کمار کے ذریعے جوش و جذبے کی شمشیر لہراتا نظر آرہاہے۔ کچھ ماہ پہلے شرالی میں سماویش منعقد کرتے ہوئے لیڈران نے بلند آواز میں سال 2017میں مرڈیشوراورسال 2018میں بھٹکل میں بڑے پیمانے پر سماویش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پرسوں بھٹکل بی جے پی صدر کے انتخاب میں بھی سنگھ کا فیصلہ ہی حتمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ (شیوانند نائک گروہ کے کئی لوگ دیگر پارٹیوں کارخ کرنے کی خبریں گھوم رہی ہیں)اس کا کیا مطلب ہے اورکیوں ایسا کررہے ہیں کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اننت کمار کے ساتھ جگدیش کارنت لگاتار بھٹکل دورے کو ممکن بنا رہے ہیں۔ ان سب حالات کے درمیان جدوجہد، احتجاج کے نام پر مسائل کو زندہ رکھیں گے تو پرانے بھٹکل کو دوبارہ دیکھنے کی سنگھ پریوار لیڈران امیدلگائے بیٹھے ہیں اس پر کسی کو تعجب بھی نہیں ہونا چاہئے۔
گذشتہ دو تین ماہ میں وقوع پذیر ہونے والی سرگرمیوں اور واقعات کا تجزیہ کریں تو بی جے پی راست طورپر سنگھ پریوار کی پکڑمیں آ چکی ہے۔ ودھان سبھا انتخابات کی حد تک مختلف ناموں کو عوام میں اچھالا جارہاہے، اس مرتبہ بھٹکل ودھان سبھا حلقہ کے ٹکٹ کا حتمی فیصلہ سنگھ پریوار کے دفتر میں ہی ہوگا۔ البتہ دیکھا جائے تو سنگھ پریوار کی طرف سےزبردستی تھوپے جانے والے امیدوار کا اٹھ کھڑا ہونا اتنا آسان نہیں ہے ،حالانکہ یہ بات لیڈران بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن کوئی مانے یا نہ مانے ، بی جے پی کے سنئیر لوگوں کا بھٹکل میں جیت درج کرنا آسان نہیں ہے، جیت ہوئی تو بہار، بہہ گئی تو پت جھڑ کے حساب میں لیڈران گم سم ہیں۔
لیکن ؟۔۔۔۔لیکن غالباً بی جے پی اس دھن میں مگن ہے کہ بھٹکل سے نکلنے والی ہوا کوایک مرتبہ ساحلی پٹی پر اڑادیں تو بس ، پھر کیا! ساحل ِ سمندر پر طوفان مچاسکتے ہیں۔ ویسے بی جے پی کو شاید اس کا بھی شعور ہے کہ صرف کانگریس کی مخالفت کریں گے تو کام نہیں چلے گا۔اسی لئے کوئی اور ، اور ، ہوناچاہئے۔ اب وہ ماحول بھی نہیں ہے کہ پارٹیوں پر تنقید و تبصرےفائدہ دیں گے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں رشوت خوری ، بد عنوانی وغیرہ کوکبھی اہمیت نہیں دی گئی البتہ دوکانیں بند کرکے سڑک پر اترنے کی باتیں آئندہ دو سالوں تک شہر ، گلی کوچوں میں گردش کرتیہیں!اس مرتبہ دکشن کنڑا کے سلیا، اُڈپی کے کارکلا ، اترکنڑا کے سرسی میں بی جے پی جیت حاصل کرکے زندہ ہے، تعداد دوگنی ہوتی ہے تو بی جے پی کے پلس پوائنٹ۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں بی جے پی جیت کے لئے کرناٹکا کے فرقہ وارانہ حساس شہر بھٹکل کودوبارہ اکھاڑہ بنانے کے چکرمیں نظر آرہی ہے۔