بنگلوروشہر کے ہر مقام پر سواریوں کی پارکنگ کا مسئلہ
بنگلورو،25؍اپریل(ایس اونیوز)حالیہ دنوں میں بنگلور شہر کے ہر ایک محلہ اور راستہ پر دو پہیہ اور چار پہیہ گاڑیوں کی پارکنگ ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔شہر میں بڑتی ہوئی آبادی اور سواریوں کی تعداد میں شدید اضافہ کے پیش نظر شہر کے راستوں کا نظم اور پارکنگ کی سہولیہات کا انتظام اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکا ہے۔جب ہم شہر کے راستوں اور یہاں کی عمارتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی عمارت اس انداز میں تعمیر نہیں کی گئی ہے کہ اس میں مناسب جگہ سواریوں کی پارکنگ کے لئے فراہم کی گئی ہو،جن عمارتوں میں زیر زمین یا عمارت کے سامنے کے حصہ میں سواریوں کے روکنے کا انتظام کیا گیا ہے وہ بھی مذکورہ عمارت کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد کے مقابلہ میں نا کافی ہی ہوتا ہے۔اس کے نتیجہ میں راستوں کے کنارے پر سواریاں روکی جاتی ہیں اور یہ صورت حال تجارتی اور کاروباری عمارتوں کے سلسلہ میں بہت زیادہ ابتر نظر آ تی ہے۔مثال کے طور پر ، شہر کی ایک سافٹ ویر انجینئرچائتالی ماٹکر کو اپنی سواری کے سلسلہ میں پارکنگ کے مسئلہ کو لے کر 35,000 روپیوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔اسی ماہ کے ابتداء میں وہ کے ایچ بی کالونی کے ایک ریستوران میں گئیں تھی جہاں گاڑیوں کو روکنے کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں تھی، مجبوراً اسے اپنی کار قریب کے رہائشی علاقہ کے ایک تنگ راستہ پر روکنا پڑا تھا جہاں دوسری اور بہت ساری کاریں بھی کھڑی کی گئی تھیں۔لیکن دو گھنٹے بعد جب وہ واپس لوٹیں تو دیکھا کہ اس کی کار کی حالت بے حد خستہ ہے۔راہگیروں نے بتایا کہ ایک ایس یو وی گاڑی یہاں سے گزری تھی اور راستہ کی تنگی کی وجہ سے وہ ماٹکر کی کار کے علاوہ دوسری کاروں کو بھی گھستی ہوئی چلی گئی جس کی وجہ سے ان تمام کاروں کی حالت خراب ہو گئی تھی، چائتالی ماٹکر کو اپنی کار درست کرانے کے لئے تقریباً 35,000 روپئے خرچ کرنے پڑے تھے اور اس کے نتیجہ میں کار کی قیمت پر جو اثر پڑا وہ الگ ہے۔ماٹکر نے بتایا کہ’’ہمارا یہ نقصان نہیں ہوتا اگر مذکورہ ریستوران میں گاہکوں کی گاڑیوں کے روکنے کے لئے مستقل جگہ فراہم کی جاتی۔اسی لئے میں بڑی گاڑی کے بجائے اپنی نیانو کار میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہوں لیکن اس کے باوجود کہ وہ گاڑی بہت چھوٹی ہوتی ہے ،پھر بھی اکثر مواقع پر اس کو روکنے کے لئے صحیح جگہ نہیں مل پاتی۔جہاں تک شاپنگ مالس کا معاملہ ہے وہ لوگ سواریوں کی پارکنگ کے لئے بہت بھاری فیس طلب کرتے ہیں۔ شہر کا پورا بنیادی ڈھانچہ ہی بری شکل میں ہے‘‘۔کورمنگلا، اندرا نگر اور آس پاس کے علاقوں میں اس طرح کے رہائشی مقامات بہت زیادہ ہیں جہاں سواریوں کی پارکنگ راستوں کے کنارے کی جاتی ہے اور وہاں پارکنگ کی کوئی متعینہ جگہ موجود نہیں ہے۔یہاں کے ایک تاریخ کے استاد رینوکا گووند کا کہنا ہے کہ’’حکام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دن شہر کے راستوں پر سواریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس صورت میں پارکنگ کی جگہوں میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔سواریوں کی پارکنگ کے لئے ہمہ منزلہ عمارتوں کی تعمیر ہونا چاہئے اور پارکنگ کے لئے منظم قوانین و ضوابط کی ترتیب اور ان کا نفاذ بھی ضروری ہے تاکہ بد عنوانیوں پر قابو پایا جا سکے‘‘۔خصوصاً تجارتی علاقوں میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ کی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ان علاقوں میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ خریداریوں کے لئے آتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے عوام کو تعجب ہوتا ہے کہ یہاں سواریوں کو روکنے کے لئے مناسب انتظام کیوں نہیں کیا گیا ہے، لوگوں کا احساس ہے کہ ،اس کی وجہ سے نا صرف غیر قانونی پارکنگ مقامات کا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ شاپنگ مالس کی طرف سے پارکنگ کے لئے من مانی فیس وصول کرنے کے سلسلہ کو بھی حوصلہ افزائی حاصل ہو رہی ہے۔رہائشی ہو یا تجارتی مقامات، ہر جگہ سواریوں کی پارکنگ کے لئے مناسب جگہوں کا فقدان ، ہر دن کا مسئلہ ہے۔ووکلی پورم کی ساکن سافٹ ویر انجینئرکاویا باسکر کا کہنا ہے کہ’’ایک طرف برگیڈ روڈ اور کمرشل اسٹریٹ جیسے علاقے ہیں جہاں روزانہ ہزاروں لوگ خریداریوں کے لئے آتے ہیں اور بعض دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی ہو جاتا ہے، مگر ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مناسب پارکنگ مقامات کا یہاں فقدان ہے اور دوسری طرف اوریان جیسے شاپنگ مال ہیں جہاں سواریوں کی پارکنگ کے لئے بہت بھاری رقم وصول کی جاتی ہے۔یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان حالات میں غیر قانونی پارکنگ کے مقامات عوام میں زیادہ مقبول ہوا کرتے ہیں۔کبھی ختم نہ ہونے والی ، قانونی پارکنگ مقام کی تلاش کے مقابلہ میں آسانی سے حاصل ہوجانے والے راستوں کے کنارے اور فٹ پاتھ پر سواریاں روکنے کو ترجیح دی جاتی ہے‘‘۔ایک طالب علم پریتھم ، اس حقیقت کا تذکرہ کرتا ہے کہ کیسے پارکنگ مقامات کی کمی راستوں پر ٹرافک کے اژدھام کو بڑھا دیتی ہے، اس لئے کہ راستوں کے کنارے روکی گئی سواریاں اس کے ایک بڑے حصہ کو کھا جاتی ہیں اور تنگ راستوں میں سواریوں کا اژدھام بڑھ جاتا ہے۔واضح قوانین و ضوابط کا فقدان عام طور پر پارکنگ مقامات پر سواریوں کے تحفظ سے زیادہ جگہ کے مالکان یا ٹھیکہ داروں کے لئے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہی ثابت ہوتا ہے۔پریتھم کا کہنا ہے کہ’’سرکاری عمارتوں کے علاوہ میں نے کہیں بھی سواریوں کی پارکنگ کے لئے مناسب مقامات نہیں دیکھے ہیں اور اگر کہیں موجود بھی ہوتے ہیں تو وہاں سواریاں روکنے کے لئے ہمیں بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔پیسے ادا کرنا بھی اس وقت تک ٹھیک ہوتا ہے ،جب تک کہ ہم ان مقامات پر یہ بورڈ نہ دیکھ لیں کہ’یہاں پارکنگ سواری مالک کی رسک پر ہوگی‘۔میرا خیال ہے کہ یہ لوگ پارکنگ کے نام پر صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور انہیں لوگوں کی سواریوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی‘‘۔انہوں نے شکایت کی کہ نائنڈہلی وغیرہ میٹرو اسٹیشنوں کے پارکنگ مقامات پر سواریاں روکنے والوں سے گھنٹے کے حساب سے فیس وصول کی جاتی ہے۔ پریتھم نے بتایا کہ’’اس کے باوجود ہمیں اپنی سواریوں کو لے کر اطمینان نہیں ہوتا،مناسب پارکنگ مقامات کی کمی کے علاوہ قوانین و ضوابط کا فقدان بھی راستوں پر بے تحاشہ اور من مانے انداز میں سواریوں کے روکے جانے کے مسئلہ کو بڑھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ٹرافک کے اژدھام میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘‘۔