بنگلہ دیشی چیف جسٹس کے ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق خدشات
ڈھاکہ،15؍اکتوبر (ایس او نیوز؍ آئی این ایس انڈیا)بنگلہ دیش کے چیف جسٹس نے ہفتے کے روز وطن سے رخصت ہوتے ہوئے ملکی عدلیہ کی آزادی سے متعلق گہرے خدشات کا اظہار کیا۔ جسٹس سریندر کمار سنہا چودہ اکتوبر کو اپنی ایک ماہ کی رخصت کے دوران ڈھاکا سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو گئے۔
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے ہفتہ چودہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی چیف جسٹس کی آج آسٹریلیا روانگی کے وقت اس جنوبی ایشیائی ملک میں یہ افواہیں مسلسل گردش کر رہی تھیں کہ انہیں مبینہ طور پر حکومت کی طرف سے دباؤ ڈال کر یہ رخصت لینے پر مجبور کیا گیا۔ اس مبینہ دباؤ کی وجہ چیف جسٹس سنہا کا سنایا جانے والا وہ تاریخی عدالتی فیصلہ بنا، جو ڈھاکا حکومت کی خواہشات کے برعکس تھا۔اے ایف پی نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس سنہا نے اپنی عدالتی ذمے داریوں سے ایک ماہ کی جو رخصت لی تھی، اس کا آغاز چند روز قبل ہوا تھا۔ اس رخصت سے محض چند ہی ماہ قبل چیف جسٹس سنہا کی سربراہی میں ڈھاکا میں ملکی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے بنگلہ دیشی پارلیمان کے یہ اختیارات ختم کر دیے تھے کہ یہ قانون ساز ادارہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ارکان کو ان کے عہدوں سے ہٹا سکتا ہے۔ملکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہنے والے ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ کا یہ اقدام ایک ایسا فیصلہ تھا، جس کے ذریعے اس مسلم اکثریتی ملک میں سیکولر عدلیہ کا تحفط کیا جا سکتا تھا۔اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا کے لیے اپنے روانگی سے قبل چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا، ’’مجھے (ملک میں) عدلیہ کی آزادی سے متعلق تشویش ہے۔‘‘ اے ایف پی کے مطابق اپنے اس بیان کے ذریعے چیف جسٹس سنہا نے اس حکومتی تنقید پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس کا انہیں ملکی ججوں کی پارلیمان کی طرف سے برطرفی سے متعلق مقدمے میں فیصلے کے بعد سے سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔چیف جسٹس سریندر کمار سنہا نے اپنے اس بیان میں یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ وہ 10 نومبر کو اپنی رخصت ختم ہو جانے کے بعد واپس وطن لوٹیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر انصاف کے ان دعووں کی بھی تردید کی کہ ان کی رخصت اور بیرون ملک روانگی کی وجہ ان کی علالت بنی۔چیف جسٹس سنہا کے ہفتے کو جاری کیے گئے تحریری بیان کا ایک خاص پہلو ان کی طرف سے زور دے کر یہ کہا جانا بھی تھا، ’’میں بیمار نہیں ہوں۔ میں ملک سے فرار بھی نہیں ہو رہا۔ میں واپس لوٹوں گا۔ میں ملک سے عدلیہ کے بہتر مفادات کی خاطر رخصت ہو رہا ہوں۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگست میں انہوں نے جو عدالتی فیصلہ سنایا تھا، اس پر کئی سیاسی حلقوں، وکلاء، حتیٰ کہ حکومتی وزراء اور خود وزیر اعظم (شیخ حسینہ) کی طرف سے کی جانے والی تنقید بھی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔ڈھاکا میں بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین بار اسوسی ایشن یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ چیف جسٹس سنہا کو دباؤ ڈال کر رخصت پر جانے پر مجبور کیا گیا۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ بار اسیوسی ایشن کے صدر زین العابدین کے مطابق، ’’حکومت کی طرف سے عدلیہ کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔‘‘