بنگلور بم دھماکہ معاملہ؛ ۱۶؍ سال سے جیل میں بند مسلم شخص کی ضمانت منظور؛ جمعیۃ علماء کی دیگر ملزمین کے لئے بھی کوشش جاری
ممبئی۲۳؍ فروری (ایس او نیوز/ پریس ریلیز) دہشت گردی کے الزامات کے تحت گذشتہ ۱۶؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے بنگلور کے مسلم شخص کو سپریم کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کئے ہیں ، یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ گذشتہ کل سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پیناکی چندرا گھوس اور جسٹس روہیتن فالی نریمن نے سن ۲۰۰۰ء میں کرناٹک کے مختلف شہروں میں ہوئے چار بم دھماکہ معاملے میں نچلی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے سید عبدالقادر جیلانی کو پچاس ہزار روپئے کے ذاتی مچلکہ پر ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے، ملزم کی ضمانت عرضداشت پر ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ ملزم گذشتہ ۱۶؍ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے نیز ملزم نے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی ہے لیکن اس پر ابھی تک سماعت شروع نہیں ہوسکی۔
ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف صرف یہ الزام ہیکہ وہ دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی ٹریننگ لینے کے لیئے پاکستان گیا تھا حالا نکہ اس تعلق سے تحقیقاتی دستوں نے نہ تو اس کا پاسپورٹ ضبط کیا اور نہ ہی عدالت میں ایسا کوئی پختہ ثبوت پیش کرسکے کہ ملزم پاکستان گیا تھا باوجود اس کے صرف دیگر ملزمین اور سرکاری گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر ملزم کو نچلی عدالت نے قصور وار ٹہرایا تھا ۔
ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ چا ر بم دھماکوں کی سماعت ایک ساتھ عمل میں آئی لیکن عدالت نے فیصلہ الگ الگ دیا جس کی وجہ سے ملزم ایک بم دھماکہ معاملے میں باعزت بری ہوگیا تھا لیکن دوسرے معاملے میں اسے مجرم قرارد یا گیا ، حالانکہ قانوناً ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ساتھ سماعت ہونے والے معاملے میں علیحدہ سزائیں سنائی جائیں لہذا عدالت کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کی نچلی عدالت نے فیصلہ سناتے وقت فاش غلطی کی ہے ۔
ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے عدالت کو بتایا کہ سید عبدالقادر جیلانی بنگلور کا شہری ہے اور اسے ضمانت پر رہا کیا گیا تو وہ ان تمام شرائط کی پاسداری کریگا جو عدالت اس پر عائد کریگی نیز ملزم کی گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے۔
حالانکہ وکیل استغاثہ وی این رگھوپتی نے ملزم کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی مخالفت کی لیکن دو رکنی بینچ نے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جا نے کے احکامات جاری کیئے ۔
واضح رہے کہ ۲۰۰۰ میں ہونے والے بم دھماکوں کے الزامات کے تحت تحقیقاتی دستوں نے تعزیرات ہند کی دفعہ 120-B,121,121-A,153 ، ایکسپلوزیو سبسٹنس ایکٹ کی دفعہ 3,4,5 اور ایکسپلوزیو ایکٹ کی دفعہ 5,9-B کے تحت ۲۷؍ ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا تھا، آٹھ سالوں تک مقدمہ کی سماعت خصوصی عدالت میں چلنے کے بعد ۲۱؍نومبر ۲۰۰۸ء کو خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ۴؍ ملزمین کو باعزت بری کردیا اور بقیہ ملزمین کو عمر قید با مشقت کی سزا ء سنائی۔
نچلی عدالت سے ملی عمر قید کی سزاء کو ملزمین نے کرناٹک ہائی کورٹ کی بنگلور بینچ میں چیلنج کیا جہاں ۱۲؍ دسبر ۲۰۱۲ء کو ہائی کورٹ نے ملزمین کی سزاء کو برقرار رکھا جس کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء کے توسط سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر سماعت ہونا ابھی باقی ہے ۔ اس معاملے کے ایک ملزم سید حسن کی جیل میں موت ہوچکی ہے اور بقیہ ۲۲؍ ملزمین کی اپیل زیر سماعت ہے ۔
ملزم سید عبدالوہاب جیلانی کی ضمانت پر رہائی کے بعد ممبئی میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے گلزار اعظمی نے بتایا کہ دیگر ملزمین کی ضمانت پر رہائی کے لیئے کوشش کی جارہی ہے ۔