آسام شہریت تنازع؛ ’این آر سی‘کی معیاد میں توسیع کی درخواست خارج
نامکمل این آرسی شائع ہونے پر خون خرابہ کا خدشہ: اٹارنی جنرل، حکومت سنجیدہ ہوتی تویہ صورتحال ہی پیدا نہ ہوتی: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی،30نومبر (ایس او نیوز؍پریس ریلیز) سپریم کورٹ نے آسام میں شہری تنازع سے متعلق نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس (این آر سی)کے کام کا پہلا مرحلہ 31دسمبر 2017تک ہی مکمل کرکے اسے شائع کرانے کی ہدایت دی ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی اورجسٹس روہنٹن نریمن کی بنچ نے آج رجسٹرار جنرل آف انڈیا کی ایما پر اٹارنی جنرل آف انڈیا کی عرضداشت پرسماعت کرتے ہوئے این آر سی کا کامکمل کرنے کے لئے ا س کی معیاد میں 31جولائی 2018تک کی توسیع کرنے کی درخواست کوخارج کر دیا۔اس سے قبل عدالت عالیہ نے ’پنچایت سرٹیفکیٹ‘اور ’اصل مقیم‘شہریت معاملے میں اپنافیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ عدالت میں سماعت کے دوران سینئرایڈوکیٹ کپل سبل، سلمان خورشید، اندرا جے سنگھ، سنجے ہیگڑے اورفضل ایوبی وغیرہ موجود تھے۔
واضح ہوکہ اٹارنی جنرل آف انڈیا نے عرضداشت داخل کر کے مطالبہ کیا تھا کہ ابھی چونکہ کافی کام باقی ہے اور تمام افراد کے ویریفیکیشن کا کام 31دسمبر تک مکمل نہیں ہوپائے گا اس لئے این آرسی کا کامکمل کرنے کے آخری تاریخ 31دسمبر 2017سے بڑھا کرجولائی 2018کردی جائے۔اٹارنی جنرل کی بات سننے کے بعد عدالت نے تاریخ میں توسیع کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ہدایت دی کے کام کو جاری رکھا جائے اور 31دسمبر 2017 کواین آرسی پبلش کیا جائے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے کہا کہ اگرایسا ہوا تو آ ٓسام میں زبردست خون خرابہ(Blood Shed)(ہوسکتا ہے اوربدامنی پھیلنے کا خدشہ ہے؟۔ا س پرعدالت نے کہا کہ قانون وانتظام حکومت کا مسئلہ ہے اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین نے عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو الگ الگ اختیارات دیئے ہیں۔ عدالت کوایکزیکیٹیو معاملات میں اس طرح سے تاریخ طے کرنے کا کوئی اختیارنہیں ہے۔ یہ حق تو صرف حکومت کا ہے۔ ایسا کرکے عدلیہ حکومت کے دائرہ کارمیں مداخلت کر رہی ہے۔
اٹارنی جنرل کے ایسا کہنے کے بعد عدالت نے کہا کہ وہ اپنافیصلہ دے چکی ہے کہ تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی لیکن اب جبکہ انہوں نے کہا ہے کہ عدالت کو تاریخ طے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، تو عدالت کہنا چاہے گی کہ ہم ا س معاملہ کی تین سال سے مانیٹرنگ کررہے ہیں لیکن اس سے قبل حکو مت کی جانب سے کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ عدلیہ کوتاریخ طے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ا سلئے عدالت اپنے موقف پرقائم ہے اورجتنا بھی کام ہوچکا ہے حکومت کو اسی کی بنیاد پر 31دسمبر2017تک کا پہلا مرحلہ کا این آرسی شائع کر دینا چاہئے۔اس معاملے کی آئندہ سماعت اب 28فروری کوہوگی۔ جمعیۃ علماہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج سپریم کورٹ میں این آ رسی کے کام کی معیاد میں توسیع کرنے کی حکومت کی عرضداشت کومسترد کردئے جانے کے فیصلے کوقابل قبول بتاتے ہوئے کہا کہ اگرحکومت نے اپناکام پہلے سے ہی سنجیدگی سے کیا ہوتا تواسے معیاد میں توسیع کے لئے درخواست نہ کرناپڑتی بلکہ یہ کام وقت مقررہ سے قبل ہی مکمل ہو سکتا تھا لیکن حکومت کی دخل اندازی اور کام کوالتوا میں ڈالنے کی روش اس جگہ لے آئی ہے جہاں اٹارنی جنرل کو عدالت میں کھڑے ہوکر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر نا نکمل این آرسی شائع ہوا تو آسام میں خون خرابہ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ مولانامدنی نے کہا کہ چونکہ حکومت نے حالات کو خودخراب کیا ہے اس لئے اب عدالت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ا سکام کو خوش اسلوبی اور پرامن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔