تیری ذہنیت کا غم ہے ،غمِ بال وپر نہیں ہے از:حفیظ نعمانی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 25th July 2016, 2:37 PM | اسپیشل رپورٹس |

جو کچھ گجرات کے اونا میں دلتوں کے ساتھ ہوا یا بی جے پی اتر پردیش کے نائب صدر دیا شنکر سنگھ نے سابق وزیر اعلیٰ مس مایاوتی کو کہا ۔یا جو دادری کے بساڑہ گاؤں میں مرحوم اخلاق احمد اور انکے گھر والوں کے ساتھ ہوا وہ نہ حادثہ تھا ،نہ سانحہ بلکہ اس ذہنیت کا مظاہر ہ تھا جو انکے دھرم سے بنتی ہے ۔
بات اخلاق کے گھر سے شروع کریں تو اگر دماغوں اور دلوں میں دشمنی نہ بھری ہوتی تو اس خبر کے بعد کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ہے ۔ہو نا یہ چاہئے تھا کہ وہ دو چار بزرگ جو برسوں سے انکے پڑوس میں رہ رہے تھے وہ آتے ۔سوتے ہوئے اخلاق کو اٹھا تے اور ان سے کہتے کہ یہ خبر پھیل رہی ہے کہ تم نے گائے کاٹی ہے اور گوشت گھر میں رکھا ہے ؟۔تو وہ اسکا جواب دیتے ۔اپنے گھر کی تلاشی دیتے اور فرج میں رکھا ہوا گوشت انہیں دیدیتے کہ یہ حاضر ہے ۔آپ کسی سے بھی معلوم کرلیں کہ یہ گوشت کس جانور کا ہے۔؟اگر یہ گائے کا ہی ہوتا تو انکے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھاتے اور معاملہ پولیس پر چھوڑ دیتے کہ وہ جو چاہے سلوک کرے ؟لیکن جو کچھ انکے ساتھ ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے اس میں نہ گائے ہے نہ گائے کا گوشت بلکہ یہ ہے کہ ایک مسلمان جو کل تک کچھ نہیں تھا آج اسکا ایک لڑکا فو ج میں اعلیٰ افسر ہے اور دوسرا تیاری کرکے بعد میں ایس ڈی ایم یا کلکٹر بن جائے ۔اور ہم جن کی حکومت ہے وہ ٹھوکریں کھائیں؟۔
یا وہ گائے بیل کی کھال اتار کر اسے دھو کر ہزار بارہ سو روپے روز کما کر 80ہزار کی بلٹ پر بیٹھ کر ہم راج کماروں کے سامنے سے گذرے؟اور ہم سائیکل پر چلیں ؟ یا پنڈتائین ،ٹھکرائن،اور چودھرائن چولھا چوکا کریں اور وہ اپنے کہنے کے مطابق ایک چمار ی کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی دیش کے سب سے بڑے پر دیش کی مہارانی بنے ؟یہ کسی کو برداشت نہیں ہورہا ہے ۔اور اب دو سال سے اس پارٹی کی حکومت ہے جو کہا کرتے تھے کہ اگر انکی حکومت بن جائے تو وہ سب ٹھیک کردیں گے ۔اور اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک کرنے کا عمل ہے ۔اور اسی لئے جو سب سے بڑے ہیں وہ خاموش ہیں۔مسلمانوں کو ملچھ بھائی میرے سامنے اس لڑکے نے کہا تھا جو ایک بہت بڑے گھر کا لڑکا تھا ۔سنبھل کا رہنے والا تھا اور جس کے چچا میرے عزیز ترین دوست اور باپ مجھے حفیظ بھائی کہتے تھے ۔اور جو لکھنؤ یونیورسٹی میں میری سرپرستی میں پڑھ رہا تھا ۔لیکن وہ آرایس ایس کی شاکھا میں روز جاتا تھااور یہ تحفہ وہاں سے لایا تھا کہ برسوں سے چچا کہنے والا مجھ سے ہی کہہ رہا تھا کہ یو نیورسٹی میں اگر ملچھ بھائی میر ا ساتھ دیدیں تو میں 5سو ووٹ سے الیکشن جیت سکتا ہوں ۔جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ مصلحت چچا کہلا رہی ہے ورنہ ہر ہندو کے نزدیک ہر مسلمان ملچھ ہے ۔
اور دلت جو ہیں انکے بارے میں کتابیں نہیں دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں ۔اور آج ہی نہیں جب سنگھ پریوار کی حکومت ہے ۔بلکہ آزادی کے بعد سے نہرو کی حکومت سے لیکر راجیو گاندھی کی حکومت تک آئے دن اخبار ایسی خبروں سے بھرے رہتے تھے کہ دلت خاندان نے ٹھاکر صاحب کے گھر آنے والی بارات کی خدمت میں کمی کردی توسب کے جوتے مارے گئے۔کسی دلت نے اپنی لڑکی کو سائیکل خرید کر دے دی تو اونچی ذات والوں کے سامنے سے وہ سائیکل پر بیٹھ کر نہیں جا سکتی تھی ۔یا جس تا لا ب میں پنڈت جی کی بھینس نہارہی تھی اس میں کوئی دلت نہانے کے لئے کیوں گیا ۔؟یا شکلا جی کے ہینڈ پمپ سے دلت نے پانی کیسے پیا ؟اور کسی ہندو کو یہ برداشت نہیں کہ دلت لڑکے اور لڑکیاں اپنی محنت سے اچھے نمبر لائیں ۔با بو جگ جیون رام سے لیکر مس مایاوتی تک جتنے بھی دلت لیڈر وزیر بنے وہ ڈاکٹر امبیڈکر ، پنڈت نہرو ،ڈاکٹر راجندر پرشاد ،مولانا آزاد اور سب سے زیادہ مہاتما گاندھی کی اس ضد سے بنے کہ ملک میں جو حکومت ہوگی وہ جمہوریت ہوگی جس میں ہر بالغ کو ووٹ دینے کاحق ہوگا ۔اور یہ صرف اس وجہ سے ہو سکا کہ آزادی کے لئے انگریز وں سے لڑنے یا ان سے ملک کی آزادی کی گفتگومیں آر ایس ایس کا کوئی حصہ نہیں تھا اور وہ یا ہندو مہا سبھا در پردہ انگریزوں کی مدد کر رہے تھے ۔اگر یہ لوگ جنکے ہاتھوں میں آج حکومت ہے ۔اسو قت آگے ہوتے تو ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور دلتوں کو ووٹ دینے کا حق نہ ہوتا یا ہوتا تو وہ شرطوں میں لپٹا ہوا ہوتا جس کا ثبوت سبرا نیم سوامی کے وہ بیانات ہیں جن میں انہوں نے بار بار کہا ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ کا حق واپس لے لیا جائے ۔جیسے یہ حق انکے باپ نے دیا تھا ۔
ہم نے زیادہ تو نہیں پڑھا لیکن اتنا پڑھا ہے کہ ہندوؤں اور بدھ مت کا کا ئنات کے بارے میں تصور یہ ہے کہ ازل سے ابد تک صرف اتنا ہی ہے جتنا ایک بلبلے کا وجود جو دریا کے پانی میں مو ج کے تلاطم سے پانی کی سطح سے اچھلتا ہے پھر آن کی آن میں دریا میں گر کر غائب ہو جاتا ہے ۔انسانوں کی ہستی بھی اس کائنات کا محض ایک جزو ہے ۔اسی طرح انکے نزدیک تناسخ کایہ تصور ہے کہ اگر آدمی اچھے کا م کرے تو اسے جزا ملے گی اور برے کام کرے تو اسے سز املے گی ۔او ر وہ سزا اس برائی کے مطابق ہو گی ۔اگر اس نے تھوڑی برائی کی ہے تووہ اگر راجہ مہاراجہ یا بادشاہ ہے تو مرنے کے بعد وہ غلام کے طور پر پیدا ہوگا ۔اور اگر اس نے زیادہ بڑی برائی کی ہے تو وہ بلی یا کتا یا کوئی جانور بن کر آئے گا ۔اگر اس سے بھی بڑی برائی کی ہے تو وہ درخت بنے گا اور بے انتہا مظالم کئے ہیں تو وہ پتھر بن کر آئے گا ۔
اس کے بعد صدیوں کی مدت ہو گی جو وہ پتھر سے درخت بنے گا یا درخت سے جانور بنے گا ۔یا ادنیٰ قسم کا شودر بنے گا اور اگر اس نے اچھے کام کئے تو وہ ویش بنے گا ۔پھر اور اچھے کام کئے تو وہ کھتری بنے گا ۔اور مسلسل اچھے کام کرنے کے صدیوں کے بعد جب وہ پیدا ہوگا تو برہمن پیدا ہو گا ۔اور جب برہمن نے بہت اچھے کام کئے تو وہ مرنے کے بعد خدا کی ذات میں ضم ہو جائے گا یعنی پانی میں بلبلہ گر کر پانی ہو جائے گا ۔ یہ ہے آواگون اور تناسخ کا تصور ۔
مسلمانوں کا تصور جنت اور دوزخ کا ہے ۔جنت ان کے لئے ہے جنہوں نے پیغمبر وں کے بتائے ہوئے وہ اچھے کام کئے جنکے کرنے کے بعد ان سے جنت کا وعدہ ہے ۔جسکے بارے میں دو چار نعمتوں کا تو ذکر قرآن پاک میں موجود ہے ان کے علاوہ حدیث میں ہے کہ جنت میں وہ ملے گا جسے انسان نے نہ دیکھا ہوگا ،نہ سنا ہو گا ،نہ اسکا تصور کیا ہوگا ۔اور یہ بات قرآن نے صاف کردی ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ بڑا ہو تا ہے ۔اور جو وقت پیدا کر نے والے نے اسکے لئے لکھدیا ہے اس وقت اسے موت آجاتی ہے ۔پھر اسے زمین میں دفن کر دیا جا تا ہے اور وہ اسوقت دو بارہ زندہ ہوگا جب قیامت کے بعد میدان حشر میں سب کو جمع کیا جائیگا ۔ اور اسے بتا یا جائے گا کہ تم نے کیا کیا اور اب تمہاراٹھکانہ کہاں ہے؟دلتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہندو مان لیا جائے لیکن کوئی ہندو انہیں ہندو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔اور اگر ووٹ کی خاطرانہیں قریب بٹھابھی لیا تو پھر بھی نہ انہیں مندروں میں جانے کی اجازت ہے اور نہ ساتھ بیٹھ کر کھلانے کی ۔
مسلمانوں کو سنجیدگی سے دلتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے مجھے فخر ہے کہ میں ایسا مسلمان ہوں جس نے اس مسلمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے جسے اس نے مدینہ کے شاہ فہد اسپتا ل کے دل کے وارڈ کا گندہ فلش دھوتے ہوئے دیکھا تھا جو اسپتال میں مہتر تھا ۔اور ہر نماز سے پہلے نہا کر کپڑے بدل کر آتا تھا ۔اور نماز پڑھتا تھا اور ضرورت پڑنے پر پڑھاتا بھی تھا ۔اور مجھے فخر ہے کہ میں اس دادا کا پوتا ہوں جس نے اپنے گھر کے اس مہتر کو 70برس پہلے جو روز پیخانہ لے جانے کے لئے آتا تھا ۔اسے گھر بلا کر نہلا کر پاک کپڑے پہناکر اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا جسے ایک درجن سے زیادہ سنبھل کے آریہ سماجی لیڈر بھی دیکھ رہے تھے ۔اور دلتوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ مسلمانوں میں صرف دو ذاتیں ہیں ایک آل رسول جو سید ہیں اور باقی سب غیر سید ہیں یعنی مسلمان ہیں ۔انھوں نے جو ذات اور برادریاں بنائی ہیں وہ سب جھوٹ ہے ۔وہ سب صرف مسلمان ہیں جو پیدائشی مسلمان ہوں یا سو برس یا ہزار برس پہلے مسلمان ہوئے ہوں ۔بس یہی بات دلتوں کو سمجھائی جائے اسکے لئے چاہے سیاسی پلیٹ فارم ہو یا مذہبی یہ کام کرنے والوں کے اوپر ہے ۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...