حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو روکنےAPCR صدر ایڈوکیٹ مچھالا نے دی ججس کو پوسٹ ریٹائرمنٹ کافائدہ نہ دینے کی تجویز
بنگلورو8؍اکتوبر (ایس او نیوز) ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر)کے زیر اہتمام ریاست بھر کے کارکنوں کو قانونی جانکاری دینے کے مقصد سے بنگلور میں منعقدہ قانونی کارگاہ سے خطاب کرتے ہوئے APCR کے قومی صدر ایڈوکیٹ یوسف مچھالا نے کہا کہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کو روکنے اور متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے کام کرنا ازحد ضروری ہوگیا ہے۔ جب ورکشاپ کے شرکاء نے سوال کیا کہ اس کا آخر حل کیا ہے تو ممبئی ہائی کورٹ کے معروف ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ نے بتایا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کو روکنے کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ چاہئے ہائی کورٹ کے ججس ہوں یا سپریم کورٹ کے ججس ہوں، اُن کو پوسٹ ریٹائرمنٹ بینی فیٹ نہیں ملنی چاہئے، ان کے مطابق پوسٹ بینی فیٹ کے لالچ میں وہ دبائو میں آتے ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوڈیشری میں ججس کے جو ٹرمس اور کنڈیشن ہیں اُس میں بھی بدلائو لانے کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے بھی ہمیں آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے پروگرام میں ورکشاپ میں شریک کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق پبلک پروسیکوٹر ایڈوکیٹ بی ٹی وینکٹیش نے بڑا دلچسپ تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قانونی سسٹم میں ایک بڑی خرابی کے طور پر ایک اصول اپنایا گیا ہے کہ کسی بھی تحقیقاتی کمیشن، یاثالثی arbitrationکے لئے اس کا سربراہ کم از کم ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جسٹس ہونا ضروری ہے۔اور یہ عہدہ انہی ججوں کوملتا ہے جو اپنے نظریات اور طریقہ کار سے حکومت کی منشاء کے مطابق کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب ریٹائر منٹ کے بعد ان ججس کو ملنے والی دیگر تمام مراعات ختم ہوجاتی ہیں تو ان کے لئے اس طرح کے عہدوں کی شدید ضرورت رہتی ہے تاکہ ان کا اسٹیٹس بنارہے اور اعلیٰ قسم کی مراعات انہیں ملتی رہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ ایسے حالات میں تحقیقاتی کمیشن یا arbitrationکا سربراہ حکومت کے مفاد کے خلاف عام شکایت کنندگان اور متاثرین کو کہاں سے انصاف دلا سکیں گے۔ انہوں نے جناب یوسف مچھالا کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ ججس کو تحقیقاتی کمیشن یا arbitrationکا سربراہ نہیں بننا چاہئے۔
کارگاہ میں ایڈوکیٹ بی ٹی وینکٹیش نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اے پی سی آروالے جو کام کررہے ہیں و ہ ایک طرح سے ملک کی خدمت ہے۔ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی سرگرمیاں انجام دینے والوں کو روکنے کے لئے پہلے ہمیں اپنا طریقۂ کار سیکھنا ہوگا ۔اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم سسٹم پر سوال اٹھانے اور پوچھنے کی عادت پیدا کریں۔دوسری بات یہ کہ کسی دوسرے مسیحا کا انتظار کرتے نہ بیٹھیں بلکہ انسانیت کی مسیحائی کے لئے خود ہی کھڑے ہوجائیں۔دوسروں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں خود ہی آگے بڑھ کر کام کریں۔آج اگر ملک کا نظام دستوی حدود میں نہیں چل رہا ہے تو پھر اس کودرست کرنے اور دستوری دائرے میں لانے کی ذمہ داری ہماری اپنی ہوتی ہے۔جو بھی غلط اور عوام کے مفاد کے خلاف فیصلے ہونگے اس پر سوال اٹھانا ہوگا۔انہوں نے موجودہ میڈیا کے رول پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے سنجیدہ مسائل پر توجہ نہیں دیتا بلکہ تفریحی پروگرام کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔اہم اور سنجیدہ موضوعات کو اس لئے میڈیا میں کوریج نہیں دیا جاتا کیونکہ نیوز چینلس خریدلیے گئے ہیں اور وہ سنجیدہ موضوعات کو پس پشت ڈالتے جارہے ہیں۔
اے پی سی آر کے ذمہ داران کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام اضلاع کے ذمہ داران اور رضاکار آپس میں ایک نیٹ ورک بنائے رکھیں۔ اور ہر ہفتے ایک مرتبہ آپس میں رابطہ کرکے مختلف مقامات کے حالات کی جانکاری لیں۔کسی بھی ایشو پر رہنمائی حاصل کریں۔اس طرح کا طریقہ کار اپنائے بغیر کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کیا جاسکے گا۔ہم ایسے گروپ کو روکنے اور ان کے منصوبوں کو ناکام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے جو ہجومی تشدد اور قتل و غارت گری کرتے ہوئے اپنے آپ کو اکثریت دکھارہے ہیں، جبکہ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔لیکن اس قسم کی ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ مچاتے ہیں کہ ان پر بڑی کثیر تعداد کا گمان ہونے لگتا ہے۔
انہوں نے بیرونی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پرشہری اپنے حقوق سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنے حقوق کے لئے لڑنا جانتے ہیں اس لئے وہاں پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بہت کم ہوا کرتی ہیں۔اور اگر کوئی پولیس آفیسر اس کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر اس کاسزاپانا یقینی ہوجاتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں کے نظام میں اس کی بہت کم گنجائش ہے۔لہٰذا اے پی سی آر اگر اس انداز سے کام کرے اور ہر غلط و غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز اٹھائے تو یہاں بھی یہ کام آسان ہوجائے گا۔