ڈونالڈ ٹرمپ، وسوسے اور توقعات آز؛ منصور عالم قاسمی،
9/11/2001 کے حملے نے امریکہ کو چونکایا تھا، ٹھیک 15/ سال بعد اب ایک بار پھر9/11 کو امریکہ نے دنیا کو چونکا دیا ہے،امریکی انتخابی تاریخ کا سب سے بڑا الٹ پھیر کرتے ہوئے انتہائی نا پسندیدہ شخص ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب جیت لیا۔ تین شادیاں کر چکے،چھ گرل فرینڈرکھ چکے،اپنی ہی بیٹی سے عشق لڑانے کی چاہت رکھنے والے یہ وہی ڈونالڈ ٹرمپ ہیں جوچند ماہ قبل فقط صنعتکار اور ریئل اسٹیٹ کاروباری کے حوالے سے معروف تھے،انہوں نے۰۸ کے دہائی میں سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن برائے نام،۔۲۱۰۲/ میں ریپبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی مگر سیاست کے کسی عہدے میں کبھی فائز نہیں ہوئے،ہاں قریب سے سیاست کو دیکھنے اور باریکی سے سمجھنے کا بھرپور موقع ملا،پھر انہوں نے اس عزم کا اظہار کر دیا کہ مجھے صدارتی انتخاب لڑنا ہے اور جم کر لڑنا ہے،تیز و تند آندھی آئے یا طوفان مجھے سب سے ٹکرانا ہے اور جیتنا ہے بس....!ٹرمپ کی سوانح نگار بلیرلکھتی ہے کہ:انہوں نے ہارنا نہیں سیکھا ہے،جیت ان کا جنون ہے“۔
ان کے رو برو امریکیوں کے داخلی اور خارجی حالات،ان کی کمزوریاں اور عالمی منظرنامے تھے، چنانچہ پرچہئ نامزدگی داخل کرتے ہی ٹرمپ وہ سارے پانسے پھینکنے لگے جو انہیں وہائٹ ہاؤس تک پہونچا سکتے تھے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، امریکہ میں داخلہ پر پابندی،میکسیکو میں دیواریں کھڑی کرنا،مسلم ممالک اور چین کے خلاف سخت اقدامات کا انتباہ،کروڑوں غیر قانونی رہ رہے مقیمین کو ملک بدری جیسے مدعوں کو شدت کی ساتھ انہوں نے اٹھایا جس سے عالمی سطح پرخوف و دہشت کا ماحول بن گیا،اکثریت نے ان کی جیت کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا،۰۸ فیصدی امریکی میڈیا،۵۷ فیصدی کاروباری اورخود ریپبلکن پارٹی کے کئی بڑے لیڈران انہیں شکست دینے کی اپیل کر رہے تھے،آخری وقت تک کسی کوبھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ فتح سے ہمکنار ہوں گے لیکن سارے تجزیات،مخالفت، دعوے اور قیاس آرائیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور چشم جہاں نے دیکھا کہ کس طرح تہذیب و اخلاق سے عاری شخص کامیاب ہو گیا، حالانکہ امریکہ کے پاپولر ووٹ یعنی جو سیدھے عوام کے توسط سے دیئے جاتے ہیں وہ ہیلری کلنٹن کو زیادہ ملے تاہم جن صوبوں میں ٹرمپ نے بازی ماری وہاں کے الیکٹرول ووٹ ڈونالڈ کو زیادہ ملے ہیں۔
انتخاب اور میچ میں ہار جیت ایک لازمی حصہ ہوتا ہے مگر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے،بلکہ مخمصے میں ڈال دیا ہے، ہر کسی کی زبان میں یہی ہے کہ آخر تلخ لہجہ اپنانے والا،نفرت کی بولیاں بولنے والا،اشتعال انگیززبان استعمال کرنے والا،متعصب،متشدد شخص کیسے جیت گیا؟حسب توقع نتائج کا اعلان ہوتے ہی ۷۲ ممالک کے میڈیا نے بھی ٹرمپ کی جیت کو خطرناک قرار دیا۔ برطانوی اخبا ر”گارجین“نے لکھا:امریکہ نے اپنے سب سے خطرناک شخص کوصدر منتخب کر لیا،امریکی عوام بند گلیوں میں پہونچ گئے،ٹرمپ ذہنی طور پر الجھے ہوئے منتشر مزاج شخص ہیں،وہ کسی بھی وقت کچھ کر سکتے ہیں،،۔جرمن اخبار ”سوڈیشے زیٹونگ“لکھتا ہے: ایک تباہ کن شخصیت کے مالک ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے“۔فرانس کے اخبار ”لبریشن“نے یوں بھڑاس نکالی: ٹرمپ کی جیت خیالات کو منجمد کر دینے والی غنودگی ہے،یہ تصور کرنا اذیت ناک ہے کہ دو ڈھائی ماہ بعد وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ جیسا جنسی درندہ جھوٹا اور واہیات شخص براجمان ہوگا“۔آسٹریلین اخبار ”دی ایج“نے لکھا: ٹرمپ چین کے ساتھ معاشی جنگ شروع کردیں گے،دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں کو صفایا کر دیں گے جس سے بڑا معاشی استحکام نمودار ہوگا اور دنیا کی معیشت کوڑا کا ڈھیر بن جائے گی۔“”سی این این“ نے تبصرہ کیا:ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے دنیا کو دھچکا لگا ہے۔“ ”اینڈی پینڈیٹ“ کے مطابق غصیلی آوازوالا شخص دنیا کا طاقتور ترین شخص بن گیا۔“الغرض امریکہ سمیت پوری دنیا میں ٹرمپ کے جیتنے سے مایوسی اور خوف کا لہر دوڑ گیا ہے۔امریکہ میں تو ان کے خلاف سخت مظاہرے ہو رہے ہیں، بوسٹن،شکاگو،لاس اینجلس،سان فرانسسکو،آسٹن اور ٹیکساس کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں یونیورسیٹیز کے ہزاروں طلباء وطالبات سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں،”نو ٹرمپ نو“”ٹرمپ ہمارے صدر نہیں“ ”ہم نسلی اور طبقاتی امتیاز کی حمایت نہیں کرتے“”ہم آپ سے نفرت کرتے ہیں“وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں کی نفرت کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ خود اپنے صوبہ نیویارک میں الیکشن ہار گئے ہیں تاہم ٹرمپ کا ٹرمپ کارڈ کامیاب ہوگیا ہے اور وہ ۸۸۲ سیٹیں لے کر قصر صدارت تک پہونچ گئے ہیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اخلاقیات سے عاری، احمقانہ اور متنازعہ بیان دینے والا،خواتین کے تئیں تحقیر آمیز رویہ رکھنے والااور لوگوں کے ناپسند کرنے کے باوجود آخر ٹرمپ کیسے جیت گئے؟؟اس کا جواب صحافی ڈیوڈ یوں دیتے ہیں: یہ غیر سیاسی آدمی تھے اور تیس صوبوں میں ۰۵۲ سے زیادہ ریلیاں کیں،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی،داخلی حفاظت،امیگریشن پالیسی،صحت،غیر قانونی مقیمین کا ملک سے اخراج،معاشیات کو درست رخ دینے اور سب سے بڑی بات ثابت قدمی کہ لاکھ مخالفت کے باوجود نہیں جھکے۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا انتخاب کے وقت جو جارحانہ انداز ٹرمپ نے اپنایا تھا وہ صرف ووٹ لینے کی چال تھی جیساکہ انڈیا میں نریندر مودی نے کھیلی تھی یا اس پر عمل پیرا بھی ہوں گے؟ مجھے لگتا ہے کتھنی اور کرنی میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا: مترو!ہمیں ایک موقع دیجئے ۰۰۱ دن کے اندر کالا دھن واپس لے آئیں گے اور ہر ایک کے کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ جمع کرادیں گے، لال میٹ بند کروادیں گے،مہنگائی کم سے کمتر کردیں گے،نوکریوں کی بہار لے آئیں گے۱ آج ہندوستانی عوام سزا بھگت رہے ہیں،اسی طرح ٹرمپ کے لئے کئے ہوئے وعدے پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے،چنانچہ جیت درج کرتے ہی اس نے اس کا عندیہ بھی دے دیا ہے، اس نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے انتہائی مہذب اور متوازن انداز میں کہا کہ: امریکی انتظامیہ ہر کسی کے ساتھ شفاف انداز میں پیش آئے گا اور دشمنی کے بجائے اتحادواتفاق پر نظر رکھے گا،اور سارے لوگوں کو ساتھ لے کر چلے گا“۔انہوں نے مسلم مخالف شبیہ کو بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے فوری طور پر اپنے ویب سائٹ سے وہ سارے بیانات ہٹوا دیئے جو مسلم مخالف تھے۔ایک چیز ہے ”چیر پروبلم“ یعنی ہزار خواہشوں اور کوششوں کے باوجود اقتدار میں رہ کر آپ وہ فیصلے نہیں لے سکتے ہیں جس کی پہلے چاہت ہوتی تھی،حالانکہ ٹرمپ کے لئے کوئی بھی فیصلہ لینا بہت مشکل نہیں ہوگی کیونکہ سینیٹ اور ہاؤس دونوں جگہیں ان کی پارٹی اکثریت میں ہے،لیکن اگر اس نے حسب وعدہ جنونی اور جارحانہ فیصلے لینا شروع کردیئے تو خود امریکہ اور عالمی پیمانے پر بہت برا اثر مرتب ہوگا بالفاظ دیگر دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ جائے گی۔
مضمون نگار منصور عالم قاسمی ، ریاض سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں، موصوف بصیرت میڈیا گروپ کے اعزازی ایڈیٹرہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ای میل اڈرس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]