اردو میڈیم اسکولوں میں نصابی کتب فراہم نہ ہونے سے طلبا تعلیم سے محروم ؛ کیا یہ اُردو کو ختم کرنے کی کوشش ہے ؟
بھٹکل :28/جولائی (ایس اؤ نیوز)اسکولوں اور ہائی اسکولوں کی شروعات ہوکر دو مہینے بیت رہے ہیں، مگر یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ریاست کرناٹک کے 559سرکاری ، امدادی اور غیر امدادی اردو میڈیم اسکولوں اور ہائی اسکولوں کے لئے ابھی تک کتابیں فراہم نہیں کی گئی ہیں، جس سے بچوں کی پڑھائی نہیں ہوپارہی ہے۔ طلبا ، اساتذہ اور والدین و سرپرستان اُردو میڈیم اسکولوں کی اس تعلیمی صورت حال سے پریشان ہیں اور سوال کررہے ہیں کہ کیا اُردو کو ختم کرنے کی سازش تو نہیں ہے ؟
اترکنڑا ضلع کی بات کریں تو 6اردومیڈیم سرکاری ہائی اسکول، 8امدادی اور 3غیر امدادی سمیت کل 17اردو میڈیم کے اسکول ہیں، جہاں کل 2371طلبا زیر تعلیم ہیں۔ کنڑا اور انگریزی میڈیم کے تمام مضامین کی کتابیں ہر اسکول میں پہنچ چکی ہیں اور وہاں باقاعدہ تدریس شروع ہوچکی ہے، مگر اردو میڈیم کے طلبا نصابی کتابوں کے بغیر پڑھائی سے محروم ہیں۔ اساتذہ کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ نصابی کتابوں کے بغیر دسویں جماعت کے لئے ایف اے 1کی امتحان کیسے کریں سمجھ سے باہر ہے۔
اردو سے بے توجہی سے ریاست میں کئی اردو میڈیم اسکول بند ہوگئے ہیں، اگر حالات یوں ہی جاری رہے تو بقیہ اسکول کے دروازے بھی بند ہونے دیر نہیں لگے گی۔ سرکاری سطح پر بیان جاری کیا جاتاہے کہ مئی کے مہینے تک تمام نصابی کتابیں مہیا کی جائیں گی ، مگر اس کا نفاذ کہاں تک ہوا ہے اس کی کوئی نگرانی نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا سمیت اساتذہ اور والدین کو گومگوں کی حالات کا سامنا ہے۔
اس سلسلے میں بھٹکل اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول کے صدر مدرس شبیر دفعدار نے پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے 2مہینوں سے کتابوں کے بغیر طلبا کی تدریس مشکل ہورہی ہے۔ ریاضی، سائنس اور سماجی سائنس کے مضامین کی کتابیں نہ ہونے سےاساتذہ بھی طلبا کو کیا پڑھائیں اور کیا نہیں، ہم تذبذب کا شکار ہیں۔ نصاب تبدیل ہونے سے پرانی کتابیں بھی بیکار ہوگئی ہیں۔ جہاں زبانی مضامین کا تعلق ہے پرانے طلباکی کتابوں کی زیراکس کرکے چند طلبا کو دئیے ہیں، کیونکہ سبھی طلبا کو مہیا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسے حالات میں طلبا میں اُردو میڈیم سے تعلیمی شوق کم ہونا لازمی امر ہے۔
جب اس سلسلے میں ساحل آن لائن نے اترکنڑا ضلع ڈپٹی ڈائرکٹر این جی نایک سے رابطہ کیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ’’ اردو میڈیم کی چند مضامین کی کتابیں اسکولوں کو ارسال کی گئی ہیں، بقیہ مضامین کی کتابیں جلد بھیجنے کے لئے انتظام کیا جائے گا‘‘۔
محکمہ کے ایک افسر نے بتایا کہ چونکہ مئی میں انتخابات منعقد ہوئے تھے جس کی وجہ سے اردو کتابوں کی پرنٹ میں تاخیر ہوئی ہے۔ ٹکنکل سطح پر رکاوٹ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کتابوں کی پرنٹ مکمل نہیں ہوپائی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دیگر زبانوں کی کتابوں کے پرنٹ میں جب کوئی دشواری نہیں ہوئی تو صرف اردو کی کتابوں کی پرنٹ میں کونسی رکاوٹ تھی سرکار ہی بتائے تو بہتر ہوگا۔
اُردو اسکولوں کے طلبا کے والدین سوالات اُٹھار ہے ہیں کہ اردو کے نام پر ووٹ بٹورنے والے سیاست دان ، اپنے مفاد کی خاطر اردو کی ٹوپی پہننے والے لیڈران و ذمہ داران، اردو کے نام پر قائم تحریکیں، تنظیمیں ، اسوسی ایشنس،سوسائٹی سب اپنی جگہ خاموش کیوں ہیں۔ دو دو مہینے گزرنے پر بھی سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔ والدین اور سرپرست پوچھ رہے ہیں کہ لیڈران اپنی سیاست اور تنظیمی نیندوں میں خراٹے مارہے ہیں کسی کو خبر ہی نہیں کہ اردو اسکولس اگر موت کی نیند سونےو الے ہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں ؟ سرپرستوں کے مطابق یہ تو جگ ظاہر ہے کہ سرکاریں اُردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہیں، وہ پوچھے رہے ہیں کہ مگر اردو کے نام پر اپنی لیڈری، سیاست اور تنظیمی دکان چمکانے والے کیا کررہے ہیں ؟۔
ریاست کے اردو اور اقلیتی محکمہ کے ویب سائٹ کے مطابق ریاست میں 270سرکاری اردو میڈیم ہائی اسکولوں میں 22269طلبا زیر تعلیم ہیں تو 2401اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح 135امدادی اردو میڈیم ہائی اسکولوں میں 21036طلبا اور 1162اساتذہ اور 154غیر امدادی اردو میڈیم ہائی اسکولوں میں 5753طلبا اور 739اساتذہ اردو کے لئے کام کررہے ہیں۔ طلبا کی تعداد پر غور کریں تو 50ہزار سے زائد طلبا اردو میڈیم میں زیر تعلیم ہیں ، کوئی کم تعداد نہیں ہے ، لیکن اس طرح کے سنگین حالات ہونے کی وجہ سے طلبا کے ساتھ والدین کا پریشان ہونا ظاہر بات ہے۔
اُردو داں طبقہ سوال کررہا ہے کہ کون ایسے والدین ہونگے جو اپنے طلبا کے مستقبل کو لےکر فکر مند نہیں ہیں۔ایسے میں والدین کے لئے ضروری ہوجائے گاکہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخل کرائیں ۔ عوام سوال کررہے ہیں کہ کیا ہمارے دانشور ، مفکر ، لیڈران اور عہدیداران بیدار ہونگے ؟