36افغان اضلاع طالبان کے کنٹرول میں، 104پر قبضے کا خطرہ
کابل30جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)افغانستان میں سرکاری دستوں کو طالبان کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں کئی علاقوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ اس وقت36اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ مزید 104 اضلاع جنگجوؤں کے کنٹرول میں چلے جانے کا خطرہ ہے۔افغان دارالحکومت کابل سے جمعہ انتیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ایک نئی امریکی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ امریکا کے افغانستان کی تعمیر نو سے متعلقہ امور کے نگران خصوصی انسپکٹر جنرل( (SIGARکی جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں سرکاری دستوں کے زیر قبضہ علاقے افغان باغیوں کے کنٹرول میں جاتے جا رہے ہیں۔اس رپورٹ میں امریکی فوج کی اعلیٰ کمان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سال جنوری میں افغان سکیورٹی دستوں کو ملک کے کُل 34 صوبوں کے 407 اضلاع میں سے 70.5 فیصد پر کنٹرول حاصل تھا۔ لیکن پانچ ماہ بعد مئی کے آخر تک ایسے اضلاع کا تناسب کم ہو کر 65.6 فیصد رہ گیا تھا۔ڈی پی اے کے مطابق اس طرح اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران افغان سکیورٹی دستے ملک کے قریب پانچ فیصد علاقے پر اپنے قبضے سے محروم ہو گئے۔ سیگار SIGAR کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ماہ قبل مئی کے آخر میں افغانستان کے 34 میں سے 15 صوبے ایسے تھے، جہاں 36 اضلاع یا تو باغیوں اور عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں تھے یا ایسے شدت پسندوں کو وہاں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔اس رپورٹ کا کابل حکومت اور امریکا کے لیے ایک پریشان کن پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان میں سو سے زائد ((104اضلاع ایسے بھی ہیں، جہاں باغیوں اور مزاحمت کاروں کے قبضے کا خطرہ ہے۔جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے سرکاری دستوں اور افغان مزاحمت کاروں کو حاصل جغرافیائی اثر و رسوخ کے تناسب میں اس تبدیلی کی وجوہات کے بارے میں لکھا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا جنگی مشن باقاعدہ طور پر دسمبر 2014ء میں ختم ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے اب تک افغان سکیورٹی دستوں کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف لڑتے ہوئے دسمبر 2014ء سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک کو حال ہی میں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ افغانستان سے اپنے باقی ماندہ فوجی دستوں کے حتمی انخلاء کا عمل مزید سست کر دیں گے تاکہ یہ غیر ملکی دستے مقامی سکیورٹی فورسز کی اور زیادہ عرصے تک مدد کر سکیں۔سلامتی امور کے ماہرین اور دفاعی شعبے کے اعداد و شمارکے مطابق نیٹو کے جنگی مشن کے خاتمے کے بعد کے ایک سال یعنی 2015ء میں طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے یا ان کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سات ہزار کے قریب افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ پچھلے سال زخمی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد14ہزار رہی تھی۔دفاعی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اس سال مجموعی طور پر ہلاک یا زخمی ہو جانے والے ایسے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کل جمعرات اٹھائیس جولائی کو کابل کے نزدیک صوبے ننگرہار میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے پانچ امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔یہ امریکی فوجی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ افغان دستوں کے مسلح تصادم میں سرکاری فوجیوں کی مدد کر رہے تھے۔ نیٹو دستوں میں شامل اپنے ان فوجیوں کے زخمی ہونے کی کابل میں امریکی فوجی کمان نے بھی تصدیق کر دی تھی۔
کانگو، صدر کابیلا کی حمایت میں بڑا مظاہرہ
کانگو30جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)عوامی جمہوریہ کانگو کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد نے صدر جوزف کابیلا کے حق میں ایک بڑا مظاہرہ کیا ہے۔ چالیس ہزار افراد کابیلا کے لیے کنساشا کی سڑکوں پر اس وقت نکلے ہیں، جب کابیلا کے سیاسی حریف کی دو روز قبل وطن واپسی پر عوام کی بڑی تعداد نے ان کا شاندار استقنال کیا گیا تھا۔ اس افریقی ملک میں سیاسی تناؤ برقرار ہے جبکہ کچھ ناقدین کے خیال میں کابیلادسمبر میں ہونے والے انتخابی عمل کو مؤخر کر کے اقتدار پر اپنی گرفت طویل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔