عوام کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے،یکجہتی ،ہم آہنگی اورمحبت کی فضاقائم کرناضروری، بابری مسجد کا سانحہ ناقابل فراموش :ممتا بنرجی
کولکاتہ، 06؍دسمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) بابری مسجد کی 25ویں یوم شہادت کے موقع پر منعقد ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے ملک کے عوام سے اپیل کی ان طاقتوں کو یکسر مسترد کردیں جو ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کے علاوہ ممتا بنرجی نے افواہوں اور غلط خبروں پر توجہ نہ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ عوام کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کولکاتہ کے میورڈوپرواقع گاندھی مورتی کے نزدیک منعقد پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بابری مسجد کو جس طریقے سے منہدم کیا گیا اور اس کی وجہ سے ملک کی یکجہتی ، ہم آہنگی اور محبت کی فضا ء کو نقصان پہنچا اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔مسلسل عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست کی جارہی ہے مگر ملک کے حق میں ضروری ہے کہ اس کی روک تھام کیلئے کوشش کی جائے۔وزیر اعلیٰ نے مرکز کی ہندتو پالیسی کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندو ازم کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔6دسمبر 1992کے سانحہ کو ممتا بنرجی یاد کرتے ہوئے کہاکہ میں 25سال پیش آئے اس واقعہ کو فراموش نہیں کرسکتی ہوں۔میں اس دن گھر ، محلہ محلہ گھوم گھوم کر اور رات بھر لوگوں کے درمیان جاکر امن و امان کی فضا کو بحال کرانے کی کوشش کی۔ممتا بنرجی نے کہا کہ ہندوستان مختلف مذاہب ، طبقات اور زبان کے بولنے والوں کا ملک ہے اور ہم کئی صدیوں سے مل جل کر رہتے ہوئے ہیں۔ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں مگر مرکزی حکومت ہندتو کے تحت اپنی مرضی ایک دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کررہی ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کسی بھی مذہب کے بھڑکانے کی کوشش کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ سیاست ناقابل قبول ہے۔میں ہندو ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں دیگر مذاہب سے نفرت کروں۔وزیر اعظم مودی کا نام لیے بغیر ممتا بنرجی نے کہا کہ کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا ہے کہ ’’کون کیا کھائے گا اور کیا نہیں کھائے گا ‘‘اس ملک کے آئین نے تمام شہریوں اپنی مرضی کا کھانے اور پینے کی اشیاء4 کے انتخاب کی اجازت دی ہے اس لیے کوئی بھی اس پر پابندی عاید نہیں کرسکتا ہے۔مسلمانوں کی منھ بھرائی کا بی جے پی کے اعتراض کا ممتا بنرجی نے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ بنگال میں 30فیصد مسلمان ہیں ،یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس 30فیصد آبادی کی ترقی و فلاح بہبود کی اسی قدر کوشش کروں جتنی میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی کرتی ہوں۔