15اگست یوم آزادی پرخاص:آزادی وطن کی تاریخ پربھگوا چادرتاننےکی سازش! تحریر:ڈاکٹراسلم جاوید

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 14th August 2016, 7:39 PM | آپ کی آواز |

ملک عزیز ہندوستان میں جب سے انتہا پسند طاقتوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے ،تب سے ہی فسطائی نظریات کوفروغ دینے کا آ ر ایس ایس کا منصوبہ بڑی شدت کے ساتھ زیر عمل لایا جارہا ہے ۔ اس منصوبہ کے تحت ملک کی دیگر اقوام کی جدو جہد آزادی میں قربانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بار پھر منظم طریقے سے فسطا ئی طاقتوں نے ملک کے دبے کچلے اور مزدور طبقہ،دلتوں اور اقلیتوں کی آزادی سلب کرنے کی سازش پر ساری مشنری کو لگا دیا ہے۔ایسے میں یوم آ ز ا د ی منانے کا مطلب کیا رہ جاتا ہے اس سوال کا جواب برسر اقتدار حکومت ،فسطائی قوتوں اور آر ایس ایس کو دینا چا ہئے۔یہ عجیب طرفہ تما شا ہے کہ جن سامراج نواز طاقتوں نے جنگ آزادی کی حمایت کے بجائے انگریزوں کی حمایت کی اوران کی نوازشوں سے اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز ہوکر خوب مال ودولت حاصل کی، وہی لوگ آج انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ باور کرارہے ہیں کہ ’’یہ وطن ہے ہمارا، تمہا را کچھ بھی نہیں‘‘۔ جبکہ جنگ آزادی کے وقت کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے جب برطانوی سامراج نے ملک پر قبضہ جمانے کیلئے ہندوستانیوں کے قتل و قتال کی ابتدا کی تھی توفسطائی طاقتوں کے دعووں کی پول کھل جاتی ہے اور یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ جو طبقہ اس وقت مجاہدین آ زادی کی قربا نیوں پر مگر مچھ کے آنسو بہارہاہے وہ تو در اصل آزادی کے متوالوں کا شدید مخا لف اورانگریزوں کا حاشیہ بردار تھا۔چناں چہ منظم سازش کے تحت تاریخ آزادی سے مسلم قائدین اور شہداء کے ناموں کو ہٹایا جارہا ہے ،برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانان ہند نے انگریز وں کی غلامی کو ذہنا کبھی قبول نہیں کیا،البتہ یہ کام تو خود فسطائی ذہنیت کے حامل اعلیٰ ذات کے برادران نے کیا ہے،جبکہ ملک کے غیور مسلمانوں نے ملک عزیز کو برطانوی استعمار کے پنجۂ استبداد سے چھڑانے اوروطن کی آزادی کی جد و جہد بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی جاری رکھی۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے ،جس نے انگریز و ں کی جار حیت کے خلاف پلاسی سے جنگ آزادی کا آغاز کیا (جسے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں’’جنگ پلاسی کے نام سے جانا جاتا ہے) اور پھر یہ جد وجہد مختلف حوالوں سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹیپو سلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہؒ ، سید احمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، سنہ 1857 کی جنگ آزادی، علمائے دیوبند کا کردار اور مسلما نو ں کی سیاسی جد و جہد کی ایک طویل فہرست ہے۔ مجاہدین آزادی کی ایک لازوال داستان ہے وطن کی آزا دی کیلئے قر با نیو ں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قید وبند، جائیداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا، جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خون ریزی، بم باری اور فضائی حملے ہیں۔جس کی اپنے وطن سے جان سے بھی زیادہ محبت کرنے والے مسلم قائدین نے کبھی بھی پرواہ نہ کی۔غور طلب ہے کہ ہندوستانی تہذیب سماج میں ہم آہنگی کے ماحول کو قائم رکھنے کی ضمانت پیش کرتی ہے۔ ہندوستان کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ظلم وستم اور کسی خوف کے بغیرسماج کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے ہیں۔ ہرکسی کو اپنے خیالات کے اظہارکا حق ملتا رہا ہے۔ ہندوستانی تہذیب انسانی تہذیب سے وابستہ رہی ہے۔ ذرا پیچھے مڑکر موریہ دور میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ایک ہزار برس سے بھی زیادہ پہلے، ہندوستانی آرٹس، فنون و لطیفہ جس نے ’’بدھ‘‘ کی شاندار پتھر کی کرنسیوں کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ قبل مسیح سیریا ئی عیسائیوں کی پہلی صدی میں آمد سے ہندوستان میں مسیحی مذہب نے اپنی جڑیں جمائیں۔ ایران میں رہ رہے پارسی ظلم و ستم سے بھاگ کر ہندوستان میں آکر آباد ہوئے۔ مسلمانوں نے بھی اس برصغیر میں آرٹ، اور زبانوں کو امیر بنایا۔وطن عزیز کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک تھے تان سین، جو اکبر کے دربار میں ایک نورتن تھے۔ دارا شکوہ نے بھاگود گیتا کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ حال ہی میں تبتی تارکین وطن نے بھی بھارت کو اپنا گھر بتایا ہے اور ہماری روحانیت اور مخلوط رہن سہن کی عظیم روایات کو مزید تقویت بخشی ہے۔ ہندوستانی تہذیب ہمیشہ سے ہی ایک وسیع سمندر کی مانند رہی ہے۔خوشی بات یہ بھی ہے کہ ملک کے آئین کے سیکولرڈھانچے نے سب کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے۔ ہندوستانی آئین کو ملک کے سب سے عظیم دانشوروں میں سے ایک بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی پیش کش وزیر اعظم نہرو کی طرف سے کی گئی تھی۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی ہم آہنگی ، بھائی چارہ ، سائنس اور جمہوریت کی ہماری متحرک روایات کے سامنے اب سنگین چیلنجزدر پیش ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اقتدار میں ایک ایسی حکومت آئی ہے، جسے فیصلے لینے کا اختیار حاصل نہیں ہے ،بلکہ فیصلہ کرنے کی ساری طاقت آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ہندوتوا کے لئے ہے اوراس نے حکومت کے سارے اختیارات اپنے قبضے میں کرلئے ہیں۔ ہمیں کیا کھانا ہے اور کس کے تئیں کیسا برتاؤکرنا ہے اس کا فیصلہ بھی اب آر ایس ایس ہی کررہی ہے۔اگر ملک کا کوئی معزز شہری ان کے نظریات کی مخالفت کرتا ہے تو اسے بہ یک قلم وطن کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔آر ایس ایس وہی تنظیم ہے جس پرملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے مہاتما گاندھی کے قتل میں اس سے جڑے عناصر کے ثبوت ملنے کے بعد پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ عناصرآج ناتھورام گوڈسے کی مورتی کی تعمیر کرانے پر بضد ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ بابائے قوم مہاتماگاندھی،ملک اولین وزیر اعظم پنڈت جوا ہر لعل نہرو، جدیدیت، سائنس اور لوگوں کے انسانی حقوق کے اصولوں سے نفرت کرتے آئے ہیں۔آرایس ایس کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے۔ آر ایس ایس سائنسی اور جدید تعلیم کے نظام کی شدید مخالف ہے۔ اس نے سب سے پہلے ہندوستان کی تاریخ سے متعلق نصابی کتابوں کو اپنا نشانا بنایاہے،تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہندوستان اورہندوستانی تہذیب آثار قدیمہ کے متعلق نصابی کتابوں میں شامل تفصیلات حقائق کے مطابق نہیں ہیں،بلکہ ان کے نظریات میں جو چیز موزوں ہے وہی تاریخ ہے۔ اس کے علاوہ، وہ اس لیے بھی ہماری آزادی کی تاریخ کو دوبارہ سے لکھنا چاہتے ہیں تاکہ سیکولر اقدار کی جانب سے نبھائے گئے کردارکوتباہ کیا جا سکے۔ آر ایس ایس کا جو نظریہ ہے اس میں قدیم ہندوستان کو اہمیت حاصل ہے۔ آر ایس ایس تمام جدید سائنسی اور اقتصادی ترقی، چاہے وہ مغرب کی دین ہو یا پھر اسلام کی انھیں مٹا دینا چاہتی ہے۔ در اصل وہ ’حقیقی‘ ہندوستانی ثقافت کے شدید مخالف ہیں،ان کیلئے تاریخ اور افسانہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی خرافات کو نصابی کتابوں میں شامل کرکے آزادی کی تاریخ کو محفوظ رکھا جاسکے گا ،یاہمارے بزرگوں اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں پر ہمیشہ کیلئے پردہ ڈال دیا جائے گا۔ہم نے مندرجہ بالاسطور میں ذکر کیا ہے کہ ایک بار پھر برطانوی اغیار کے ہم خیالوں نے ملک کے کمزور طبقات ،دبے کچلوں اوراقلیتوں کی آزادی سلب کرنے کی جانب سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ جس کیلئے سب سے پہلے ملک کی تاریخ خاص کر جنگ آزادی کی تاریخ کو ملیا میٹ کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔؍ (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...