نئی دہلی23 مئی ( ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا) آج باضابطہ کمارسوامی کرناٹک کے ’بادشاہ ‘بن گئے. ادھر کمار سوامی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لے رہے تھے ادھر 2019 کے سیاسی جنگ کا خاکہ تیار کیا جا رہا تھا۔ دہلی سلطنت کی سیاسی جنگ کا اشارہ آج کرناٹک کے پلیٹ فارم پر دیکھنے کو ملا ۔جو بی جے پی اور زعفرانی ٹولہ کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھے علاوہ ازیں اسے مودی۔ امت شاہ کے خلاف سیاسی جال یا اپوزیشن کی ’اتحادی یلغار ‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ آج کمار سوامی کی حلف برداری تقریب کے بہانہ دہلی سے دور جنوبی بھارت میں شمالی ہند کے کئی سیاسی قدآور اسٹیج پر ایک ساتھ نظر آئے ہیں ۔
اسٹیج پر نظر آنے والے قدآور لیڈران کے اسماء یوں ہیں : 1۔سونیا گاندھی، سابق صدر، کانگریس 2۔ممتا بنرجی، صدرٹی ایم سی، 3۔مایاوتی، صدر، بی ایس پی ، 4۔ اکھلیش یادو، صدر، ایس پی، 5 ۔تیجسوی یادو، سابق نائب وزیر اعلی، بہار 6۔شرد پوار، صدر، این سی پی 7۔اروند کجریوال ، وزیر اعلیٰ دہلی ، 8۔چندربابو نائیڈو، صدر، ٹی ڈی پی، 9 ۔عمر عبداللہ، صدرنیشنل کانفرنس ، جموں کشمیر ،10۔اسٹالن، ایگزیکٹو سربراہ، ڈی ایم ، 11۔سیتارام یچوری، سیکرٹری جنرل، سی پی ایم۔
کرناٹک میں اقتدار کے لیے جدوجہد کے ڈرامہ کے بعد کمار سوامی کی تاجپوشی میں شامل ان اپوزیشن کے 11 بڑے لیڈروں کا مقصد اپنے سیاسی تجریہ اور شاطرانہ چال سے مودی اینڈ کمپنی کو شکست دینا ہے ۔ ان لیڈروں کو متحدہونے کی وجہ بھارت کی 64 فیصد آبادی پر بھگوا راج ہے۔ اسی لیے یہ 64 فیصدی بمقابلہ 36فیصدی کی جنگ ہے۔ یہ 20 ریاست بمقابلہ 11 ریاستوں کی جنگ ہے۔ 2019 کے انتخابات میں یہ ملک کی36 فیصد آبادی پر حکومت بچانے کے لئے جدوجہد کرنے والے رہنما مودی کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت گرانے کی وجہ سے ان تازہ قیاس آرائیوں کو پر لگ گئے ہیں ۔ اگر مکمل اپوزیشن ایک ساتھ آ جائے تو مودی اینڈ کمپنی کی عدم تسخیر کے عفریت کو شکست دینا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ 2019 میں بی جے پی کے سامنے یہ مورچہ کتنا چیلنج پیش کرے گا۔ 11 ریاستوں کی 13 پارٹیاں مودی کو شکست دینے کے لئے ایک ہو سکتی ہیں۔ 13 ریاستوں کی 349 سیٹوں پر بی جے پی کو متحد اپوزیشن سے ٹکر مل سکتی ہے۔
2019 کے انتخابات میں مودی کے خلاف اتحاد قائم رہے گا اس کی پیشن گوئی قبل از وقت کی بات ہے ۔ تیسرے محاذ کے لئے مہم چلانے والے تلنگانہ کے وزیر اعلی نے تو ابھی ہی راستے الگ کرنے کے اشارہ دیئے ہیں۔ یوپی میں سیٹ تقسیم کو لے کر ایس پی، کانگریس کے ساتھ بی ایس پی کہاں تک ساتھ ساتھ چلے گی یہ بھی کہا جانا مشکل ہے ۔ بہار میں کانگریس، آر جے ڈی کے ساتھ ہم اور جمہوری جنتا دل کب تک ساتھ رہے گی کہنا مشکل ہے ۔
پنجاب میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایک دوسرے کے خلاف لڑتی ہیں؛ لہٰذا دہلی میں دونوں ساتھ لڑیں گی ایسا نہیں لگتا۔ آج بھلے ہی اکھلیش اور مایاوتی کانگریس کے ساتھ کرناٹک میں ایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئے ہوں ؛ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ 22 سالوں تک یہی مایاوتی اکھلیش کے خاندان کی سب سے بڑی دشمن تھی۔ ویسے ابھی یہ دشمنی دوستی میں بدل چکی ہے لیکن 2019 میں سیٹ تقسیم کو لے کر دوستی پھنس بھی سکتی ہے۔ بی جے پی کی نظر اسی پر لگی ہوئی ہے اور بی جے پی اپنی زعفرانی ہتھکنڈے سے اس کو اپنا لقمہ بناسکتی ہے ۔
نتیش کمار آج بھی بہار میں سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے ہیں۔ 2014 میں تو بغیر نتیش کے بی جے پی اتحاد کو 40 میں سے 31 نشستیں ملی تھی۔ اب نتیش کے حصے کا سولہ فیصد ووٹ بھی این ڈی اے کے ساتھ ہے۔ ایسے میں تیجسوی یادو مودی کے لئے بحران بن کر سامنے آئیں گے ایسا مشکل لگتا ہے۔2014 میں شرد پوار کی پارٹی این سی پی کانگریس کے ساتھ ہی تھی۔ تب بھی مودی این ڈی اے کو 48 میں سے 42 نشستیں ملیں۔
اس بار شیو سینا نے الگ ہوکرانتخاب لڑنے کی بات بھلے ہی کہہ رہی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسمبلی انتخابات میں شیوسینا جب الگ لڑی تب بھی بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بنی اور ابھی اس کی حکومت ہے۔ ہو سکتا ہے انتخابات آنے تک شیوسینا کے پینترے ڈھیلے پڑ جائے اور پھر بی جے پی کے ساتھ لڑے۔
جموں و کشمیر میں بھی کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ رہ کر نریندر مودی کے لیے مسئلہ نہیں کھڑی کر پائے اب تو محبوبہ بھی مودی کے ساتھ ہیں۔ جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی کے سامنے اپوزیشن کا کوئی سین فی الحال تو نہیں ہی دیکھ سکتے ہیں۔
مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں تیسری پارٹی غالب نہیں ہے۔ 2019 کے لئے مودی نے جو پلان تیار کیا ہے اسے بھی سمجھ لیجئے۔ سب سے پہلے مغربی بنگال سے شروع کرتے ہیں۔ یہاں کی سیاست میں اب ممتا بنرجی کا گویا واحد حکومت ہے لیکن بی جے پی جیسے جیسے یہاں بڑھ رہی ہے ممتا کی آنکھوں کی نیند اڑ رہی ہے ۔2019 میں بنگال میں بھگواپرچم لہرانے کے لئے مودی مکل رائے کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ مکل رائے ممتا کے بااعتماد لیڈر رہے ہیں اور ممتا کی حکمت عملی کی کاٹ جانتے ہیں۔ ممتا کی کاٹ کے لئے بی جے پی ہندوتوا کی لہر پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ پنچایت انتخابات میں بی جے پی کا دوسرے نمبر پر آنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بی جے پی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب مغربی بنگال کی 42 میں سے 2 سیٹ ہی بی جے پی کے اکاؤنٹ میں ہے۔ یعنی بی جے پی یہاں کھونے سے زیادہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
اڑیسہ کی بات کریں تو حکمراں بیجو جنتا دل کے لئے مودی یہاں سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں۔ 2014 میں بی جے پی جب ٹی ڈی پی کے ساتھ تھی تب 3 سیٹ ملی تھیں۔ ٹی ڈی پی کے الگ ہونے کے بعد وائی ایس آر کانگریس سے بی جے پی ہاتھ ملا سکتی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس ٹی آر ایس کے ساتھ نہیں آنے کا فائدہ بھی بی جے پی اٹھائے گی۔جہاں تک تمل ناڈو کا سوال ہے تو بہت ممکن ہے کہ لوک سبھا انتخابات بی جے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر لڑے۔ مودی کی پہل پر ہی پارٹی کے دو دھڑے ایک ہوکر ریاست میں حکومت چلا رہے ہیں۔ لوک سبھا کے لحاظ سے تمل ناڈو ملک کی5 ویں بڑی ریاست ہے۔ 39 میں سے 37 نشستیں 2014 میں اے آئی ڈی ایم کے نے جیتی، 2 سیٹ این ڈی اے کو ملی۔ کانگریس کے ساتھ ڈی ایم ہے تو بی جے پی اے آئی ڈی ایم کے ساتھ مل کر اس شکست دینے کی تیاری میں ہے۔کیرالہ میں جہاں لیفٹ کا راج ہے اور بی جے پی نمبر کے لحاظ سے کافی پیچھے ہے وہاں بی جے پی اثرات بڑھانے میں مصروف ہے۔ گزشتہ سال بی جے پی نے ’جن رکچھا ‘ نام کی ایک ریلی کے ذریعہ اپنے تمام قدآور کومیدان میں اتارا تھا۔ اس کا فائدہ ملنے کی امید ہے۔ان 6 ساحلی ریاستوں میں کل 164 نشستیں ہیں۔ 2014 میں بی جے پی کو ان میں سے صرف 7 سیٹوں پر جیت ملی تھیں۔