اپنی آنکھیں جوبچالیں بھی توچہرہ جھلسے! از:نایاب حسن

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 18th July 2016, 11:24 AM | آپ کی آواز |

ٌ 8؍جولائی کو ہندوستانی فوج کے ہاتھوں برہان مظفروانی کی موت کے بعدسے وادی میں ہنگامہ و احتجاج کاایک نیادورشروع ہوچکاہے،جس کاخسارہ مختلف شکلوں میں خود عوام کوہی اٹھاناپڑرہاہے،حکومت کے خلاف ان کے غم و غصے کی لہر ’قہرِدرویش برجانِ درویش‘کے مصداق کشمیری عوام کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ اور غمناک ثابت ہورہی ہے،8؍جولائی کے بعدسے لے کر اب تک تقریباً 40؍شہری اور ایک فوجی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں ،جبکہ 1600؍ سے زائدافرادزخمی ہوچکے ہیں۔عوامی آوازواحتجاج کودبانے کے لیے ہندوستانی فوج اورپولیس جوہتھیاراستعمال کررہی ہیں،اس کی زدمیں وہ معصوم لوگ بھی آرہے ہیں ،جن کا ان احتجاجات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’پیلیٹ گن‘کے ذریعے پندرہ سے تیس سال تک کے نابالغ اور جوان افرادکی آنکھیں بے نور، چہرہ زخم آلوداور جسم جھلس رہے ہیں،بی جے پی۔پی ڈی پی کی متحدہ حکومت صوبے کے حالات کوقابومیں کرنے سے زیادہ وہاں کے عوام کوگولی بارودکے ذریعے خاموش کرنے پر تلی ہے،ہندوستان کا قومی میڈیاکشمیری عوام کوہی مجرموں کی فہرست میں ڈال رہاہے اور سارے ہندوستان میں یہ آوازگونج رہی ہے کہ وہاں کے لوگ دہشت گردوں کی حمایت میں احتجاج کررہے ہیں،گزشتہ کم و بیش ستر سال سے ہندوستان کی ہر حکومت صرف کشمیر کوہندوستان کے نقشے میں دیکھناچاہتی ہے اور کشمیریوں کے جذبات،ان کے حالات ،ان کی پریشانیاں اور مصیبتیں ہندوستانی سیاست کی سفاکیت کی نذر ہورہی ہیں،کشمیر ہندوستان کا ایک خوب صورت ترین صوبہ ہے؛لیکن اس کی فضاؤں میں زہرگھول دیاگیاہے،جس کی وجہ سے اس کی ساری خوب صورتی مسخ ہو کر رہ گئی ہے، وقفے وقفے سے حالات کے کچھ بہتر ہونے کی خبریں بھی آتی ہیں؛لیکن پھر جلدہی خطۂ کشمیر ایک نئی اُفتادمیں الجھ جاتاہے،کشمیر کے تعلق سے ہندوپاک کے درمیان جوسیاسی کشیدگی ہے،وہ توہے ہی؛لیکن ہندوستانی وفاق میں شامل کشمیر کے تحفظ میں حکومتِ ہندپوری طرح ناکام کہی جاسکتی ہے۔
2010میں عمرعبداللہ کی حکومت کے دوران رونماہونے والے وسیع تر احتجاجات کے دوران مظاہرین پر قابوپانے کے لیے کشمیر میں پیلیٹ گن کے استعمال کا فیصلہ کیاگیاتھا، حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن منان بخاری کی کتاب Kashmir 150 Scars of Pellet Gunکے مطابق اس کے بعدسے 2015 تک کم ازکم 10لوگ اس کی زدمیں آکرموت کے منہ میں جاچکے ہیں،جبکہ اس کی وجہ سے شدیدطورپرزخمی ہونے والے افرادکی تعدادپندرہ سو سے بھی زیادہ ہے،جواب بہت زیادہ ہو چکی ہے،صوبائی حکومت کی اپیل پر مرکزکی جانب سے ایمس کے آنکھوں کے ماہرڈاکٹروں کی سہ رکنی ٹیم کشمیربھیجی گئی ہے،شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں داخل کم و بیش پچاس مریضوں کی آنکھوں کے طبی معاینہ کے بعداس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹرسدرشن کے کمارکاکہناہے کہ میں نے حالیہ سالوں میں کسی جنگ میں بھی’پیلیٹ گن‘سے متاثرہونے والوں کی اتنی بڑی تعدادنہ دیکھی،نہ ایسا سناہے،ان کا کہناہے کہ ان متاثرین میں سے بیس سے چالیس فیصدافرادکی ہی آنکھوں کی روشنی لوٹ سکتی ہے،جبکہ سترسے اسی فیصدافرادکی آنکھوں کی روشنی یاتوکم ہوجائے گی یابالکل ہی ختم ہوجائے گی۔
دنیابھرکے مختلف ملکوں میں الگ الگ ایشوزپر عوامی احتجاجات ہوتے ہی رہتے ہیں،کشمیر میں وقتاً فوقتاً برپاہونے والے احتجاجات کوبھی اس دائرے سے خارج نہیں کیاجاسکتا،البتہ وہاں کی تاریخ اور سیاسی الجھاؤکچھ ایساہے،جودنیابھرمیں منفردکہاجاسکتاہے،جہاں مختلف حوالوں سے کشمیر ہندوستان کی دیگرریاستوں سے علیحدہ ہے،وہیں اس ریاست میں تعینات کی گئی فوج کی کثیر تعداداوراسے دیے گئے خصوصی اختیارات کی وجہ سے کشمیری عوام کومصائب کا سامنا رہتاہے ۔اس خطے میں آئے دن کوئی نہ کوئی انہونی ہوتی رہتی ہے اوراس کے نتیجے میں عوامی احتجاجات بھی شروع ہوجاتے ہیں،جنھیں قابومیں کرنے کے لیے فوج مختلف حربے استعمال کرتی ہے،انہی میں سے ایک ’پیلیٹ گن ‘کااستعمال بھی ہے۔حالیہ واقعے کے بعدایک بارپھرقومی و بین الاقوامی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کشمیر میں ’پیلیٹ گن‘کے استعمال پرپابندی لگنی چاہیے؛کیوں کہ اس کی وجہ سے اگر چہ لوگ مرتے نہیں؛لیکن ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور کسی قابل نہیں رہتی،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اکثرایسے افراد بھی اس کی زدمیں آجاتے ہیں،جو سراسرمعصوم ہوتے اورجن کا کسی قسم کے احتجاج اور مظاہرے سے تعلق نہیں ہوتا،خاص طورپربچوں کااس کے نشانے پر آناخاصاپریشان کن ہے اوراس پر حکومتِ ہندکوتوجہ دینی چاہیے،گزشتہ الیکشن کے دوران پی ڈی پی نے انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیاتھاکہ حکومت میں آنے کے بعدوہ ’پیلیٹ گن‘کے استعمال پر روک لگائے گی؛ لیکن ایسا ہونہیں پایا اوراب حالیہ سانحے میں سیکڑوں لوگ اس کے شکارہوچکے ہیں،اس کی وجہ سے زخم خوردہ کشمیری بچوں کی ایسی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں کہ انھیں دیکھ کر دل خوں ہوجاتاہے اور صاف طورپرمحسوس ہونے لگتاہے کہ سیاسی جبرکشمیریوں کوبے رحمانہ طریقے سے موت کے آغوش میں پہنچا رہا ہے، حالات کے مشاہدہ و مطالعہ سے یہ اندازہ لگاناآسان ہے کہ ہندوستانی حکومت کشمیریوں کے ساتھ سوتیلا؛بلکہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کررہی ہے،پولیس اور سی آرپی ایف کے ذریعے سے عوامی احتجاج پر کنٹرول کرنے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں،جوغیرقانونی بھی ہیں اور غیر انسانی بھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی عالمی و قومی تنظیموں کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ کیاجارہاہے کہ کشمیر میں’پیلیٹ گن‘کے استعمال پر روک لگائی جائے؛ لیکن پی ڈی پی کے انتخابی وعدے کے باوجودموجودہ کشمیری حکومت کی جانب سے اس موضوع پر کسی اقدام کی خبرنہیں آرہی ہے ،2013میں ریاستی حقوقِ انسانی کمیشن نے انٹرنیشنل فورم فارجسٹس کی جانب سے دائر کی گی گئی ایک عرضی کے جواب میں لکھاتھاکہ پیلیٹ کا استعمال غیر انسانی ہے،اس عرضی میں ان واقعات کا تفصیلی ذکرکیاگیاتھا،جن میں کم ازکم دس لوگوں کی آنکھیں پیلیٹ لگنے کی وجہ سے بے نورہوگئی تھیں،گزشتہ سال مئی میں پیلیٹ لگنے کی وجہ سے حمیدنظیربھٹ نامی نابالغ بچے کی دونوںآنکھیں ضائع ہوگئی تھیں،جس کے بعدایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت سے پیلیٹ گن کے استعمال پر بین لگانے کی مانگ کی تھی، دوسری جانب جموں وکشمیرسی آرپی ایف کاموقف یہ ہے کہ’پیلیٹ گن‘کااستعمال کم خطرناک ہے؛کیوں کہ اس سے موت کا خطرہ نہیں رہتاہے،جموں وکشمیرسی آرپی ایف کے آئی جی اتل کروال نے ایک انگریزی نیوز پورٹل’دی وائر‘سے بتایاکہ پیلیٹ بلیٹ سے کم خطرناک ہے؛اس لیے کہ اس کے لگنے سے انسانی جان جانے کا خطرہ نہیں ہوتا؛لیکن انھیں یہ بھی توسمجھناچاہیے کہ ایسی جان لے کر لوگ کیاکریں گے،جوانھیں عملی طورپربے جان بناکررکھ دے،جب انسان کی آنکھ میں نورہی نہ رہے اوراس کے جسم کے اعضاجگہ جگہ کٹے پھٹے ہوں،جب وہ اپنی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی کی مددکامحتاج ہو،توایسی زندگی کی کیاضرورت ہوسکتی ہے،پولیس کاکہناہے کہ ہم تومجبورہیں،ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہے،اگر پیلیٹ استعمال نہ کریں، تو ہمیں بھیڑکوقابوکرنے کے لیے بلیٹ استعمال کرناہوگا،الغرض ہرحال میں زندگی توکشمیری عوام کی ہی جہنم بننی ہے!!مقامِ حیرت و افسوس ہے کہ جس محبوبہ مفتی نے گزشتہ حکومت کے دوران ’پیلیٹ گن‘کے استعمال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی سے واک آؤٹ کیاتھا،آج انہی کی حکومت میں کشمیری بچوں، بچیوں اور بے گناہ شہریوں کی آنکھیں پھوڑی جارہیں،چہرے جھلسائے جارہے اورجسم داغے جارہے ہیں؛لیکن وہ اس کے خلاف کچھ کرنے کے موڈمیں نہیں دِکھتیں۔
ہندوستان کوبہرحال یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کشمیر کوکس طرح اپنے شانہ بشانہ کھڑاکرناچاہتا ہے،کسی بھی قوم کے اجتماعی احساسات کوکچل کر اوراس کی خواہشوں،آرزووں کودباکربہت دنوں تک اسے اپنے زیرِتسلط نہیں رکھا جا سکتا، برہان وانی کوہندوستانی فوج نے ماردیااور پورے ملک کا میڈیاتالی پیٹنے میں مصروف ہوگیاکہ حزب المجاہدین کے ایک خطرناک کمانڈرکوماردیاگیا،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسے لے کرسوشل میڈیاتک پرلوگوں نے ہندوستانی فوج کی خوب تعریفیں کیں،فیس بک،ٹوئٹرپرہندوستانی فوج کی بہادری و شجاعت کے قصیدے درازسے درازترہوتے گئے اور ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ گویا ہماری فوج نے کسی بڑے دشمن ملک پر فتح حاصل کرلی ہو،برہان وانی کے دل دماغ میں جوباغیانہ خیالات پیداہونے شروع ہوئے تھے،اس کی تہوں میں جھانکنے کی بھلاکوئی کیوں کوشش کرتا!حالاں کہ اگر برہان کے خیالات میں انتہاپسندی آگئی تھی اور وہ پر تشددکارروائیاں انجام دینا چاہتا اور لوگوں میں اس کی تشکیل بھی کرتاتھا،تواس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں اس کے بھائی کی ناحق موت ہوئی تھی،کسی اپنے کے جرمِ بے گناہی میں مارے جانے کادکھ کیاہوتاہے،یہ وہی لوگ بتاسکتے ہیں جوآئے دن ایسی مصیبتیں جھیل رہے ہیں اورجن کے شب وروزسنگینوں کے سائے میں کٹ رہے ہیں،ہندوستان ان حالات پر قابوپانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا،جوکشمیری نوجوانوں کو انتہاپسندانہ راستے پرڈال رہے ہیں،ان اسباب کوختم کرنے کی کوشش آخر کب کی جائے گی،جن کی وجہ سے کشمیریوں میں احساسِ محرومی پیداہوتاہے اوروہ تشددکی راہ پرچلنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں،جب تک کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیاجاتا،ان پر سے فوجی جبرکے سایے دور نہیں ہوتے اور ان کے جان و مال،عزت وآبرو پر منڈلانے والے’افسپا‘کے پُرہول خطرات ختم نہیں ہوتے، تب تک کشمیرکی جنت نظیری کا واپس آپانامشکل ہی نہیں،ناممکن ہے۔(ایس او نیوز/آئی این ایس )

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...